میں شیعہ کیوں ہوا؟ (پارٹ6: رسول اللہ ص اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ گئے تھے ، قرآں اور اہل بیت ؑ)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجالس کو سننا میرا جنون تھا اس کے ساتھ ساتھ مجھے پڑھنے کا شوق ہوا۔ میرے پاس نوکیا موبائل تھا اس میں میں نے کچھ کتابیں ڈنلوڈ کیں اور ساتھ میں قرآن بھی ۔ اصول کافی کی چاروں جلدیں میں نے اسی موبائل میں پڑھیں اس کے بعد مناقب اہل بیت ؑ کی چارجلدیں بھی پڑھیں اور ساتھ ساتھ جو فرمان اچھا لگتا تھا اسے علیحدہ رجسٹر پر لکھ بھی لیتا تھا۔تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو اور لکھا ہوا فرمان یاد بھی رہتا ہے۔ میں نے امام جعفر صادق ؑ کا فرمان پڑھا کہ تم پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھ بھی لیا کرو کیونکہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ہر طرف جہالت ہوگی اور تمہارے پاس صرف وہی قیمتی خزانہ ہوگا جو تمہارے ہاتھوں سے لکھا ہوا ہوگا۔ اسلیے میں نے پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کیا۔میں نے اپنے موبائل میں عربی اور اردو قرآن ڈنلوڈ کیا ہوا تھا میں نے اس دیکھ کر ترجمہ لکھنا شروع کیا۔ روزانہ صبح 9 بجے آفس آتا اور لکھنا شروع کردیتا اور شام 5 بجے تک وہی لکھتا رہا۔اب موبائل سے دیکھ کر لکھنا ساتھ میں کام کرنا اور ایک ہی آیت کو بار باردیکھ کر ترجمہ لکھنا، بیان کرنے میں تو آسان لگ رہا ہے مگر کرنا بہت مشکل تھا تقریبا مجھے دو مہینے لگے تھے قرآن کا ترجمہ دیکھ کر لکھنے میں۔ لیکن میں کردکھایا اس کے بعد میرے لیے راہیں آسان ہوگئیں کیونکہ پتہ تھا کہ قرآن کیا کہتا ہے اور مسلمان کیا کہتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے قرآن کے موضوع بنائے اس میں سے اللہ امامت کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ الگ آیتیں کیں ۔ اسی طرح خلافت کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ الگ آیتیں کیں پھر ولایت کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ الگ آیتیں کیں یعنی کہ ایک بار پھر الگ اپنے طریقے سے قرآں کو لکھنے کا موقع ملا جس سے دوبارہ ترجمہ یاد ہوتا گیا۔اور اس کام میں مولا میرے مددگار تھے کیونکہ راہیں وہی کھولتے ہیں اسی طرح میرا ایمان بڑھتا گیا کہ جب اللہ سے ہدایت کی امیدیں لگا سکتے ہیں حالانکہ انہوں نے اللہ کو نہیں دیکھا ہوا تو پھر ہم امام ؑ کی غیبت میں ان سے ہدایت کی امید کیوں نہیں کرسکتے۔ بس مولا میری نیت کو جانتے تھے اس لیے مجھے کبھی لکھنے اور پڑھنے میں تکلیف نہیں ہوئی اور آج الحمدللہ میرے پاس اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوا اتنا کچھ موجود ہے کہ میرے بچوں کو کسی مولوی کے پاس حق کا راستہ دیکھنے کے لیے نہیں جانا پڑے گا۔ میں نے نیٹ سے بہت ساری کتابیں ڈونلوڈ کررکھی ہیں اور وقتا فوقتا انہیں پڑھتا رہتا ہے اسی طرح میں علامہ مجلسی کی کتابیں پڑھیں اس کے بعدشیخ صدوق کی کتابیں پھرباقر نثار زیدی کی کتابیں اسی طرح میں نے بہت ساری کتابیں پڑھ لیں۔ سب سے پہلے جو تفسیر کی کتاب پڑھی وہ تفسیر فرات تھی اسی طرح اور بھی جو جو تفاسیر سامنے آتی گئی وہ پڑھتا گیا۔یہ سب علم میں اپنے اندر سمیٹتا گیا۔اب شیعہ تو میں ہوگیا مگر شیعت میں آکر پریشانی یہ بن گئ کہ اب شیعان علی بنوں یا شیعان مجتحد۔ کیونکہ شیعوں میں دو گروہ سامنے آئے۔ لیکن چونکہ الحمدللہ کافی مطالعہ تھا اسلیے میں غیر مقلد ہی رہا کیونکہ کسی مجتحد نے میری کوئی رہنمائی نہیں کی تھی شیعہ ہونے میں تو پھر میں کیوں اپنی شیعت کو ایک ایسے بندے کے ہاتھوں بیچ دوں جسے میں جانتا تک نہیں۔ حالانکہ شروع میں جب میں مسجد میں جمعہ پڑھنے گیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ تقلیدکرو کیونکہ تقلید کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے فضائل اہل بیت ؑ پر کوئی کتاب دیں ، انہوں نے مجھے توضیع دے دی کہ پہلے یہ پڑھو بعد میں کوئی اور کتاب۔ خیر چونکہ میں ہمیشہ سے اپنے مولا کی نگاہ میں تھا اسلیے انہوں نے میری علم کے حصول کے لیے راہیں کھولیں اور مجھے پیسوں سے ایک کتاب بھی خریدنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہر طرح کی کتاب مجھے بیٹھے بٹھائے مل گئی۔ میں نے بخاری شریف کو بھی پڑھامگر چونکہ انہوں نے اہل بیت ؑ کو چھوڑ کر الگ راہ اختیار کرلی اس لیے اس کا انکار کرنے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ اور چونکہ رسول اللہ ﷺ اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ گئے تھے ، قرآں اور اہل بیت ؑ اس لیے اس حدیث سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تو بہتر ہے ہمیں قرآن و اہل بیت ؑ کا دامن تھام لینا چاہیےکیونکہ نجات کا واحد زریعہ یہی دو چیزیں ہیں کیونکہ مسلمانوں کے بڑے بڑے بزرگوں نے نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا یہی کہتے ہوئے دکھائے دئیے کہ گھر سے لکھوا لاو کہ ہم تمہارے غلام ہیں اور وصیت کی کہ اس رسید کو میرے ساتھ دفنا دینا۔ مگر وہ بھول گئے کہ غلام غلام ہوتا ہے آقا آقا ہوتا ہے اسلیے انہیں تخت خلافت چھوڑ کر آقا کی غلامی کرنی چاہیے تھی مگر انہوں نے اس طرف دھیان ہی نہیں کیا۔مگر ہمیں چونکہ علم و شعور دیا ہے آل محمد ﷺ نے اسلیے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں صرف ان کے شیعہ ہی سمجھتے ہیں۔ میں اب شیعت کے علاوہ جتنے بھی فرقے ہیں سب سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوںوہ فرقے صرف ضد کی بناپر بنائے گئے جبکہ اللہ نے حکم دیا تھا ( اے ایمان والو! اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور تفرقہ تفرقہ مت ہونا) چونکہ اللہ کی رسی اہل بیت ؑ ہیں جن کا اللہ کے ساتھ براہ راست رابطہ ہے جن نور اور اللہ کا نور ایک ہی ہے، جنکی اطاعت اور اللہ کی اطاعت ایک ہی ہے جنکی ولایت اور اللہ کی ولایت ایک ہی ہے جن کے گروہ کو اللہ نے اپنا گروہ کہا ہے۔ اس لیے میں نے اس رسی کو پکڑا اور اسی رسی پر قائم رہتے ہوئے تبلیغ ولایت ؑ کررہا ہوں کیونکہ ہم نہ تو عشیر بھولے ہیں اور نہ غدیر ۔ اللہ نے اپنے اباو اجداد کی پیروی سے منع کیا ہے اس لیے میں نے دین اسلام کو سامنے رکھا اپنے آباو اجدادکو نہیں۔ اس لیے جتنے بھی سنی حضرات ہیں خدا را وہ بھی اپنے آباو اجداد کی سنت کو چھوڑیں اور خود تحقیق کریں کہ قرآن و حدیث رسول اور حدیث اہل بیت ؑ کیا کہتی ہیں۔ اس کے بعد فیصلہ کریں کہ تمہیں کونسی راہ اختیار کرنی ہے کیونکہ زندگی مختصر اور آخرت ابدی ہے جو نہ ختم ہونے والی ہے۔ باقی باتیں کل بتاوں گاکہ فیس بک پر میں کیا کمایا اور کیا گنوایا۔