سوال: تمام مذاہب کے درمیان شیعہ مذہب کو مذہب حقہ کیوں کہا جاتا ہے؟

 

ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام ادیان قابل قبول ہیں اور آخری نبی کا دین دوسرے ادیان کی تکذیب نہیں کرتا، لیکن مذاہب کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ  نہ صحیح ہے اور نہ ہی قابل تصور۔

اس لحاظ سے ادیان اور مذاہب میں قابل اختلاف نکتہ یہ ہے کہ مذاہب، دین اور الٰہی پیغام سے مختلف  چیزیں اخذ کرتے ہیں،  اور دین سے صرف ایک چیز اخذ کرنا صحیح نہیں!

آپ کے سوال کا جواب دیتےہیں کہ تمام مذاہب کے درمیان شیعہ مذہب کو مذہب حقہ کیوں کہا جاتا ہے؟

ظاہراً اس طرح کی مختصر سی گفتگو میں ایک مذہب کی حقانیت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن ہم دو قابل غور مطلب کی طرف اشارہ کریں گے  تاکہ یہ مسئلہ کافی  حد تک ہمارے لئے واضح ہوجائے۔

پہلی بات تو یہ کہ مذہب شیعہ ایسا مذہب ہے کہ جس کے رہنما پیغمبر (ص) کے اہل بیت علیہم السلام (پیغمبر کے چچا زاد امیر المومنین، پیغمبر کی بیٹی فاطمہ زہرا اور ان کے دونوں فرزند جو پیغمبر کو ملا کر پنجتن پاک سے مشہور ہیں) ہیں۔ دوست اور دشمن سب ہی قائل ہیں کہ یہ باتقوی،  باعفت اورپاکیزہ گھرانہ ہے۔ اب ہم آپ سے سوال کرتے ہیں  کیا ایسا ہوسکتا ہے جس دین کو پیغمبر کے گھر والوں نے پیش کیا ہو، کیا اُسے بغیر غور و فکر کے چھوڑا جاسکتا ہے!؟ “اھل البیت أدری بما فی البیت”

دوسری بات یہ کہ مذہب تشیع کی بنیاد اہل بیت پیغمبر کی ولایت اور مرکزیت پر ہے اور انسان کے عقیدے اور عمل کی شناخت اُن کی پیروی میں ہے۔

قرآن میں دو سو سے زیادہ آیات  میں مختلف طریقوں سے امیر المومنین کی ولایت ، اُن کے اور اہل بیت علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے ۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض دوسرے مذاہب کے افراد شاید ان آیات کی دلالت اور شان نزول کا انکار کریں، لیکن اُن میں سے بہت سی آیات کی دلالت اور شان نزول  کے انکار کا تاریخی امکان نہیں ہے۔

مزید یہ کے فریقین کی قطعی اور مورد اتفاق روایات میں اہل بیت(ع)  کودین کی شناخت کیلئے مرکزی حیثیت حاصل ہے بلکہ اُن کی ولایت کو۔

ان روایات میں سے ایک حدیث ثقلین ہے کہ رسول خدا (ص) فرماتے ہیں: “انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی أہل بیتی”۔  شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ اہل بیت کی شان تفسیر کو بھی اور شان ولایت کو  بھی بیان کر رہی ہے، اور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ روایت اُن کی شان تفسیری کو ثابت کر رہی ہے۔ اور گفتگو اور مباحثہ میں ان دو رائے میں سے ہم مشترکہ بات کو اخذ کریں تو اس روایت سے اہل  بیت (ع) کیلئے کم سے کم شان تفسیر قرآن  ثابت ہے۔

اب اگر خود اہل بیت (ع) نے فرمایا ہو کہ مثلا آیہ ولایت – یعنی “انما ولیکم اللہ و رسولہ و الذین یؤتون الزکوۃ و ھم راکعون” – امیر المومنین (ع) کی ولایت پر دلالت کرتی ہے ، تو پھر کونسے جھگڑا  کی بات ہے!؟  یا اگر یہ افراد  آیت کریمہ “أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولی الأمر منکم”کو اہل بیت کی ولایت اور عصمت کے بارے میں سمجھتے ہیں، تو اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ؛ اور جیسا کہ بیان ہوا کہ تقریبا ً دوسو آیات میں یہ بات اہل بیت علیہم السلام کی شان پر صدق کرتی ہے۔

دوسری مثال غدیر کی روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: ‘من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ و اخذل من خذلہ” اس روایت کا بھی تمام مذاہب اسلامی کی نظر میں احادیث متواتر میں شمار ہوتا ہے۔  اس حدیث متواتر سے  کم سے کم جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اگر امیر المومنین (ع) مومنین کے مولا ہیں، تو اُن کی رضایت، مرضی اور چاہت کے علاوہ کوئی کام انجام نہیں دینا چاہیے۔ کیا ان روایات سے شیعوں کے بنیادی عقائد  ثابت نہیں ہوتے!؟

اس بارے میں یہ ابتدائی گفتگو ہے، لیکن آپ کے غور وفکر کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔