نام: سید محمد تیجانی سماوی
زمرہ جات: مستبصرین کی سوانح حیات
سید محمد تیجانی سماوی تیونس کے نامور اسلام شناس اور فرانس کی سوربن یونیورسٹی کے استاد اور ان مشہور ترین افراد میں سے ہیں جنہوں نے مذہب اہل سنت چھوڑ کر مذہب تشیُّع اختیار کیا ہے۔
وہ اپنے پہلے سفر مکہ میں وہابیت کے انتہاپسندانہ عقائد سے روشناس ہوکر ان کے نظریات کی طرف مائل ہوئے اور برسوں تک اس فرقے کے عقائد کا پرچار کیا اور وہابیت کے ساتھ تجدید تعلق کی خاطر ایک بار پھر سعودی عرب روانہ ہوئے لیکن بیروت کے راستے میں جامعہ بغداد کے ایک شیعہ استاد (پروفیسر) سے ملاقات ہوئی اور یوں اس کی زندگی کا رخ مکمل طور پر بدل گیا اور سعودی عرب کے بجائے عراق پہنچ گئے اور اس شیعہ ملک میں حاضر ہوکر متعدد نامور شیعہ علماء سے ملاقاتیں کیں چنانچہ وہابی مسلک سے پلٹ گئے اور وطن لوٹے۔ انھوں نے تیونس میں مذہب اہل بیت(ع) کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد مذہب شیعہ اختیار کیا۔
ولادت اور تعلیم:
سید محمد تیونس کے جنوبی شہر القصہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق بنیادی طور پر عراقی شہر سماوہ سے تھا۔ اس خاندان نے بنو عباس کے دور میں عباسیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے چھٹکارا پانے کی غرض سے شمالی افریقہ ہجرت کی تھی۔
تیجانی نے ابتدائی تعلیم جامعۂ زیتونہ کے ایک شعبے میں حاصل کی؛ تیونس کو خودمختاری ملی تو جامعۂ زیتونہ بند ہوئی اور وہ ایک فرانکو عربک اسکول میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے ثانوی تعلیم مکمل کی اور یوسبای میں ماقبل جامعہ تعلیمی مرکز (Pre Academic Institute) کے استاد کے طور پر کام شروع کیا اور عرصہ 17 سال تک اس مرکز میں تدریس کے بعد تیونس کے ادارہ تعلیم سے علیحدہ ہوئے۔
سید محمد تیجانی سماوی آٹھ سال تک جامعہ سوربن اور پیرس کے اعلی تعلیمی ادارے میں ادیان ـ بالخصوص تین توحیدی ادیان کا تقابلی جائزہ لینے میں مصروف رہے اور پیشہ ورانہ مطالعات و تحقیقات میں جامعہ سوربن سے فارغ التحصیل ہوئے۔
بعد ازاں انھوں نے اسی جامعہ سے فلسفہ و انسانیات میں، اور اس کے بعد "اسلامی تاریخ و مذاہب” کے پیشہ ورانہ شعبے میں تیسرے درجے کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور بعد ازاں "اسلامی فکر نہج البلاغہ اور کلام امام علی(ع) کی روشنی میں” کے عنوان سے تحقیقی رسالہ لکھ کر بین الاقوامی ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انھوں نے نہج البلاغہ کی ادبی منزلت کی بنا پر اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کا درجہ حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک "جامعہ سوربن” اور تین سال تک پیرس کے "بالزام” تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔
مذہبی تعلیم:
تیجانی نے 10 سال کی عمر میں اپنے والد اور محلے کے امام مسجد کی کوششوں سے قرآن کے پندرہ پارے حفظ کرلئے اور حفظ قرآن کی برکت سے کئی سالوں تک ماہ رمضان میں تراویح کی امامت کی۔
ان کا کہنا ہے: میرے نام کا لاحقہ "تیجانی” "طریقت تیجانیہ” سے ماخوذ ہے اور یہ طریقت تیونس، مراکش، الجزائر، لیبیا، سوڈان، مصر وغیرہ… میں رائج ہے۔ تصوف کی اس شاخ کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ مشائخ اور اولیاء اللہ نے اپنا علم ایک دوسرے سے اخذ کیا ہے لیکن شیخ احمد تیجانی نے اپتنا علم براہ راست رسول اللہ(ص) سے اخذ کیا ہے۔
تبدیلی کا آغاز:
تیجانی نے سنہ 1964عیسوی میں شہر مکہ میں مسلم عربوں کے سلسلے میں منعقدہ ایک کانفرس میں شرکت کی اور یہی کانفرس وہابیت کی طرف ان کے رجحان کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ یہ رجحان اس قدر شدید تھا کہ ان کی آرزو تھی کہ "کاش دوسرے مسلمان بھی اس عقیدے کو اپنا لیتے” ان کا خیال تھا کہ خداوند متعال نے سعودیوں کو اپنے تمام بندوں کے درمیان اپنے گھر کی نگہبانی کے لئے چن لیا ہے اور وہ روئے زمین پر پاک ترین اور عالم ترین بندے ہیں اور "خداوند متعال نے انہیں تیل کی دولت سے غنی کردیا ہے!” تاکہ حجاج کرام اور اللہ کے مہمانوں (ضيوف الرحمن) کی زيادہ سے زيادہ خدمت کریں! وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ مساجد میں جاکر لوگوں کو شرک ـ یعنی پتھروں اور لکڑیوں پر ہاتھ پھیرنے ـ سے روک لیں!
حج بیت اللہ:
خانۂ خدا کی زیارت اور وہابیت کے عقائد سے بہتر آگہی حاصل کرنے کے شوق نے تیجانی کو عمرہ اور حج بجا لانے کے لئے سعودی عرب کا سفر کرنے پر آمادہ کیا تو وہ لیبیا، مصر، لبنان، شام، اور اردن کے راستے سعودی عرب روانہ ہوئے۔ مصر میں جامعۃ الازہر کے بعض علماء سے ملاقات کی لیکن جامعہ الازہر میں قیام کرنے کی درخواست مسترد کی۔ انھوں نے مصر کے دورے میں مشہور عالم قاری قرآن عبدالباسط عبدالصمد سے بھی ملاقات کی۔
پہلا شیعہ:
تیجانی مصر سے سمندر کے راستے بیروت روانہ ہوئے تو بحری جہاز میں ان کی ملاقات جامعہ بغداد کے ایک استاد "منعم” سے ہوئی جو اتفاق سے شیعہ تھا۔ منعم کے مذہب اور عقائد جان کر انھوں نے سخت موقف اپنایا اور کہا کہ شیعہ کافر اور مشرک ہیں لیکن منعم نے بڑے آرام اور اطمینان سے انہیں تشیع سے آگہی پانے کے لئے عراق آنے کی دعوت دی۔
عراق کا سفر:
بغداد
زیارت کا شوق
اس وقت تیجانی کی منتہائے آرزو عبدالقادر گیلانی کی زیارت تھی اور انھوں نے اپنا شوق زیارت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ "بغداد پہنچا تو دیدار کے اشتیاق نے میری عقل کو ماؤف کردیا تھا اور میں گمان کررہا تھا کہ ابھی بس میں شیخ کی آغوش میں پہنچوں گا! لیکن شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتویں امام کے حرم پہنچنے کے بعد میرے ذہن میں مختلف قسم کے شکوک پیدا ہوئے اور سوالات ابھرے۔
کوفہ و نجف
تیجانی کہتے ہیں: میرا دورہ عراق کوفہ میں امام علی(ع) کے گھر، مسجد کوفہ اور پھر تھوڑے سے فاصلے پر نجف اشرف میں حرم امام علی علیہ السلام کی زیارت اور بالآخر علمائے نجف سے دیدار پر منتج، اور میری زندگی کا اہم موڑ ثابت، ہوا۔
آیت اللہ خوئی کے ساتھ
تیجانی کہتے ہیں:
میں نے اس ملاقات میں آیت اللہ خوئی سے کہا:
شیعہ ہمارے ہاں یہودیوں اور نصارٰی سے بدتر ہیں، کیونکہ یہود و نصاری خدا کی پرستش کرتے ہیں اور موسی اور عیسی پر ایمان و یقین رکھتے ہیں جبکہ شیعہ علی کی عبادت و پرستش کرتے ہیں اور ان کی تنزیہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شیعوں میں ایسے بھی جو خدا کی پرستش کرتے ہیں لیکن امام علی(ع) کو رسول خدا(ص) سے ما فوق اور بالاتر سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ جبرائیل نے امانت میں خیانت کی ہے وہ وحی علی کے بجائے محمد کے لئے لے گئے!
آیت اللہ خوئی متبسم ہوئے اور کہا:
کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان اپنے تمام تر مسلکی اختلافات کے باوجود قرآن پر متفق ہیں؟ کیا جانتے ہو کہ ہمارے پاس قرآن وہی تمہارا قرآن ہے؟ کیا تم نے قرآن کی ان آیات کی تلاوت کی ہے کہ: "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ…”۔ [ترجمہ: اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نہیں ہیں مگر ایک پیغمبر جن کے پہلے سب ہی پیغمبر گزر چکے ہیں۔]؛”مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ…”۔ [ترجمہ: محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت ، آپس میں بڑے ترس والے ہیں۔]؛ "مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ…”۔ (ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور انبیا کے لیے مہر اختتام ہیں۔) پس علی(ع) کہاں ہیں؟ پس اگر ہم شیعیان کا قرآن کہتا ہے کہ محمد(ص) پیغمبر ہیں تو یہ ساری تہمتیں کہاں سے آئیں؟ علاوہ ازیں جبرائیل امین پر خیانت کا الزام ان تہمتوں سے بھی زيادہ سنگین ہے، جب جبرائیل وحی لے کر آئے تو محمد(ص) کی عمر چالیس سال تھی جبکہ علی(ع) ابھی لڑکے ہی تھے، تو بات کیونکر معقول ہوسکتی ہے کہ وہ وحی پہنچانے میں خطا کے مرتکب ہوئے ہیں اور علی اور محمد(ص) کے درمیان فرق نہیں کرسکے ہیں؟ علاوہ ازیں شیعہ واحد مذہب ہے جو انبیاء اور ائمہ(ع) کے لئے عصمت کا قائل ہے، حالانکہ یہ بشر ہیں اور جبرائیل اللہ کے ملک مقرب ہیں اور معصوم عن الخطا ہیں اور خداوند متعال نے انہیں روح الامین کا لقب دیا ہے۔
تیجانی کہتے ہیں:
آیت اللہ خوئی کی باتیں میرے دل و جان پر بیٹھ گئیں اور انھوں نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا؛ اور سوچنے لگا کہ ہم کیوں اس منطق کا ادراک نہ کرسکے؟
ملاقات کے آخر میں آیت اللہ خوئی دسوں جلد شیعہ کتب تیجانی کے لئے ارسال کرنے کی ذمہ داری قبول کی جن کی فراہمی ان کے لئے ممکن نہ تھی۔
شہید آیت اللہ صدر کے ساتھ
تیجانی نجف میں سید محمد باقر صدر سے ملنے گئے اور سب سے زیادہ اثر اس مشہور شیعہ مرجع سے لیا۔ وہ اس ملاقات کے بارے میں کہتے ہیں:
میں نے محسوس کیا کہ اگر ایک مہینے تک ان کے پاس قیام کروں تو سید صدر کے حسن اخلاق، تواضع و انکسار اور عظمت و کرامت کی وجہ سے، ضرور شیعہ ہوجاؤنگا۔ میں جب بھی ان کی طرف دیکھتا وہ تبسم کرتے اور فرماتے: کوئی حکم؟ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ میں چار روز ان کا مہمان رہا اور ایک لمحہ بھی ان سے جدا نہ ہوا سوائے سونے کے اوقات میں۔
انھوں نے اپنی کتاب میں اس دیدار کی تفصیل بیان کی ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے مختلف موضوعات میں سید صدر سے سوالات پوچھے اور انھوں نے کافی شافی جوابات دیئے تیجانی کہتے ہیں:
میں نے سید صدر سے پوچھا کہ "سعودی اکابرین کہتے ہیں کہ صالحین کی قبور پر ہاتھ پھیرنا اور ان کی زیارت کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا، اللہ کے ساتھ شرک ہے، آپ کیا کہتے ہیں:
سید صدر نے جواب دیا:
تمام مسلمان اور یکتا پرست موحدین کا عقیدہ ہے کہ نفع اور نقصان پہنچانے والا (نافع اور ضارّ) خداوند متعال ہی ہے؛ اور اولیاء اللہ تنہائی میں نہ کسی نفع کا سبب ہیں اور نہ ہی کسی ضرر کا؛ پس یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں اور اس موضوع پر شیعہ اور سنی متفق القول تھے۔ رسول اللہ(ص) کے زمانے سے اب تک صرف وہابیوں نے اس اعتقاد کا انکار کیا ہے۔
پھر سید صدر نے ایک واقعہ سنایا جو کچھ یوں تھا:
(لبنان کے نامی گرامی عالم دین) سید عبدالحسین شرف الدین ملک عبدالعزیز آل سعود کے زمانے میں مکہ مشرف ہوئے۔ عید الضحی کا جشن بپا تھا اور سارے علماء عبدالعزیز آل سعود کے پاس جمع ہوئے تھے۔ سید شرف الدین نے سعودی بادشاہ کو قرآن مجید کا ایک نسخہ دیا جس کی جلد بکرے کی کھال سے بنی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے قرآن لے لیا اور اس کو احترام کے ساتھ چھوما اور اپنی پیشانی پر رکھا۔ سید شرف الدین نے اسی حال میں کہا: اے بادشاہ! آپ کیوں بکرے کی اس کھال کو چھومتے ہیں اور اس قدر اس کی تظیم کرتے ہیں؟ بادشاہ نے کہا: اس تعظیم کا تعلق جلدوں کے بیچ میں قرآن کے لئے ہے نہ کہ جلد پر لگی کھال کے لئے۔ اور سید شرف الدین نے فورا کہا: بہت اچھے اے بادشاہ! ہم بھی ضریح نبوی(ص) اور حرم کے دروازوں کو اللہ کے نبی(ص) کی تعظیم کی نیت سے چھومتے ہیں ورنہ ہم لکڑی اور پتھروں کی تعظیم کے لئے ایسا نہیں کرتے۔ حاضرین نے تکبیر کی آواز بلند کی اور اسی سال سے ضریح نبوی ! کو مسّ کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ سلسلہ بادشاہ کے انتقال اور ولیعہد کے برسر اقتدار آنے تک جاری رہا اور ولیعہد نے اس کو دوبارہ ممنوع قرار دیا۔
تحقیق کا آغاز:
تیجانی عراق سے شام اور اردن کے راستے سفر حج پر چلے گئے اور سفر حج سے واپسی پر شیعہ اصول عقائد کا مطالعہ شروع کیا۔ اہم ترین کتاب جو انھوں نے اس سلسلے میں پڑھی، سید عبدالحسین شرف الدین کی کتاب "المراجعات” تھی۔ کہتے ہیں:
یہ کتاب در حقیقت میرا کردار ادا کررہی تھی؛ اور ایک محقق کے طور پر ـ جس کو حقیقت جہاں بھی ملے، قبول کرتا ہے ـ یہ کتاب میرے لئے بہت مفید دی اور اس کتاب کا میرے اوپر بڑا حق ہے۔
روش تحقیق:
تیجانی نے نجف میں میں علماء کے ساتھ ملاقات کے بعد "حقیقت تک پہنچنے کے لئے تحقیق کی روش اپنانے کا فیصلہ کیا”۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے:
میں نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ اب جبکہ میں ایک طویل اور دشوار بحث کا آغاز کررہا ہوں، بہتر یہی ہے کہ سند و ثبوت تیجانی کے طور پر ان صحیح احادیث کو قطعی مستند اور ثبوت قرار دوں جو شیعہ اور سنی کے درمیان متفق علیہ ہیں، اور ان احادیث کو چھوڑ دوں جن پر ایک مسلک نے اعتماد کیا ہے اور دوسرے مسلک میں وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔ اس اعتدال پسندانہ روش سے میں جذبانی، مذہبی، قومی اور ملکی تعصبات و رجحانات سے بھی محفوظ رہوں گا، شک و تردد کا امکان بھی ختم کردوں گا اور یقین کی بلندیوں بھی پہنچ جاؤں گا اور یہی اللہ کا سیدھا رستہ ہے۔
تألیفات:
تیجانی نے شیعہ مذہب قبول کرنے کے بعد مذہب تشیع کی حقانیت کے اثبات کے سلسلے میں کئی کتابیں تالیف کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
- پھر میں ہدایت پا گیا
- اہل بیت حلاّل مشکلات
- شیعہ ہی اہل سنت ہے
- ہمراہ با راستگویان
- المیہ جمعرات
- از آگاهان بپرسید
- راه نجات
- حکم اذان
- سفرها و خاطرات
منفی تشہیری مہم:
تیجانی نے شیعہ حقانیت کے اثبات اور وہابیت کے انحرافی عقائد کے رد و انکار کے سلسلے میں کئی کتب تحریر کیں تو انہیں وہابیوں اور سعودیوں کی شدید تشہیراتی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔
کسی وقت انہوں نے دعوی کیا کہ تیجانی ایک خیالی نام ہے جو شیعہ علماء نے گھڑ لیا ہے؛ بعد ازاں مدعی ہوئے کہ یہ کتابیں اسرائیل لکھوا رہا ہے تاکہ لوگ ان کے بارے میں شک و تردد سے دوچار ہوجائیں اور بعد میں انھوں نے کہا کہ تیجانی شیعہ ہیں نہ ہی سنی، بلکہ مرتد ہو چکے ہیں!۔
ڈاکٹر تیجانی خود اس سلسلے میں کہتے ہیں:
مجھ پر یلغار ہو رہی ہے کیونکہ جو شخص اپنی دعوت اور مذہب میں قویّ اور طاقتور ہوتا ہے، اس کے بارے میں چہ میگوئیوں اور شبہات کی یلغار زیادہ ہوتی ہے۔ میں اس زمرے کا آدمی تھا، میں نے شیعہ مذہب اختیار کرکے بہت زیادہ شور و غوغا کے اسباب فراہم کئے اور بہت سے شبہات کا باعث بنا۔
جولائی 3 2019
سید محمد تیجانی سماوی
نام: سید محمد تیجانی سماوی
زمرہ جات: مستبصرین کی سوانح حیات
سید محمد تیجانی سماوی تیونس کے نامور اسلام شناس اور فرانس کی سوربن یونیورسٹی کے استاد اور ان مشہور ترین افراد میں سے ہیں جنہوں نے مذہب اہل سنت چھوڑ کر مذہب تشیُّع اختیار کیا ہے۔
وہ اپنے پہلے سفر مکہ میں وہابیت کے انتہاپسندانہ عقائد سے روشناس ہوکر ان کے نظریات کی طرف مائل ہوئے اور برسوں تک اس فرقے کے عقائد کا پرچار کیا اور وہابیت کے ساتھ تجدید تعلق کی خاطر ایک بار پھر سعودی عرب روانہ ہوئے لیکن بیروت کے راستے میں جامعہ بغداد کے ایک شیعہ استاد (پروفیسر) سے ملاقات ہوئی اور یوں اس کی زندگی کا رخ مکمل طور پر بدل گیا اور سعودی عرب کے بجائے عراق پہنچ گئے اور اس شیعہ ملک میں حاضر ہوکر متعدد نامور شیعہ علماء سے ملاقاتیں کیں چنانچہ وہابی مسلک سے پلٹ گئے اور وطن لوٹے۔ انھوں نے تیونس میں مذہب اہل بیت(ع) کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد مذہب شیعہ اختیار کیا۔
ولادت اور تعلیم:
سید محمد تیونس کے جنوبی شہر القصہ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق بنیادی طور پر عراقی شہر سماوہ سے تھا۔ اس خاندان نے بنو عباس کے دور میں عباسیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے چھٹکارا پانے کی غرض سے شمالی افریقہ ہجرت کی تھی۔
تیجانی نے ابتدائی تعلیم جامعۂ زیتونہ کے ایک شعبے میں حاصل کی؛ تیونس کو خودمختاری ملی تو جامعۂ زیتونہ بند ہوئی اور وہ ایک فرانکو عربک اسکول میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے ثانوی تعلیم مکمل کی اور یوسبای میں ماقبل جامعہ تعلیمی مرکز (Pre Academic Institute) کے استاد کے طور پر کام شروع کیا اور عرصہ 17 سال تک اس مرکز میں تدریس کے بعد تیونس کے ادارہ تعلیم سے علیحدہ ہوئے۔
سید محمد تیجانی سماوی آٹھ سال تک جامعہ سوربن اور پیرس کے اعلی تعلیمی ادارے میں ادیان ـ بالخصوص تین توحیدی ادیان کا تقابلی جائزہ لینے میں مصروف رہے اور پیشہ ورانہ مطالعات و تحقیقات میں جامعہ سوربن سے فارغ التحصیل ہوئے۔
بعد ازاں انھوں نے اسی جامعہ سے فلسفہ و انسانیات میں، اور اس کے بعد "اسلامی تاریخ و مذاہب” کے پیشہ ورانہ شعبے میں تیسرے درجے کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور بعد ازاں "اسلامی فکر نہج البلاغہ اور کلام امام علی(ع) کی روشنی میں” کے عنوان سے تحقیقی رسالہ لکھ کر بین الاقوامی ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انھوں نے نہج البلاغہ کی ادبی منزلت کی بنا پر اس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ انھوں نے ڈاکٹریٹ کا درجہ حاصل کرنے کے بعد ایک سال تک "جامعہ سوربن” اور تین سال تک پیرس کے "بالزام” تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔
مذہبی تعلیم:
تیجانی نے 10 سال کی عمر میں اپنے والد اور محلے کے امام مسجد کی کوششوں سے قرآن کے پندرہ پارے حفظ کرلئے اور حفظ قرآن کی برکت سے کئی سالوں تک ماہ رمضان میں تراویح کی امامت کی۔
ان کا کہنا ہے: میرے نام کا لاحقہ "تیجانی” "طریقت تیجانیہ” سے ماخوذ ہے اور یہ طریقت تیونس، مراکش، الجزائر، لیبیا، سوڈان، مصر وغیرہ… میں رائج ہے۔ تصوف کی اس شاخ کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ مشائخ اور اولیاء اللہ نے اپنا علم ایک دوسرے سے اخذ کیا ہے لیکن شیخ احمد تیجانی نے اپتنا علم براہ راست رسول اللہ(ص) سے اخذ کیا ہے۔
تبدیلی کا آغاز:
تیجانی نے سنہ 1964عیسوی میں شہر مکہ میں مسلم عربوں کے سلسلے میں منعقدہ ایک کانفرس میں شرکت کی اور یہی کانفرس وہابیت کی طرف ان کے رجحان کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔ یہ رجحان اس قدر شدید تھا کہ ان کی آرزو تھی کہ "کاش دوسرے مسلمان بھی اس عقیدے کو اپنا لیتے” ان کا خیال تھا کہ خداوند متعال نے سعودیوں کو اپنے تمام بندوں کے درمیان اپنے گھر کی نگہبانی کے لئے چن لیا ہے اور وہ روئے زمین پر پاک ترین اور عالم ترین بندے ہیں اور "خداوند متعال نے انہیں تیل کی دولت سے غنی کردیا ہے!” تاکہ حجاج کرام اور اللہ کے مہمانوں (ضيوف الرحمن) کی زيادہ سے زيادہ خدمت کریں! وہ اپنا فرض سمجھتے تھے کہ مساجد میں جاکر لوگوں کو شرک ـ یعنی پتھروں اور لکڑیوں پر ہاتھ پھیرنے ـ سے روک لیں!
حج بیت اللہ:
خانۂ خدا کی زیارت اور وہابیت کے عقائد سے بہتر آگہی حاصل کرنے کے شوق نے تیجانی کو عمرہ اور حج بجا لانے کے لئے سعودی عرب کا سفر کرنے پر آمادہ کیا تو وہ لیبیا، مصر، لبنان، شام، اور اردن کے راستے سعودی عرب روانہ ہوئے۔ مصر میں جامعۃ الازہر کے بعض علماء سے ملاقات کی لیکن جامعہ الازہر میں قیام کرنے کی درخواست مسترد کی۔ انھوں نے مصر کے دورے میں مشہور عالم قاری قرآن عبدالباسط عبدالصمد سے بھی ملاقات کی۔
پہلا شیعہ:
تیجانی مصر سے سمندر کے راستے بیروت روانہ ہوئے تو بحری جہاز میں ان کی ملاقات جامعہ بغداد کے ایک استاد "منعم” سے ہوئی جو اتفاق سے شیعہ تھا۔ منعم کے مذہب اور عقائد جان کر انھوں نے سخت موقف اپنایا اور کہا کہ شیعہ کافر اور مشرک ہیں لیکن منعم نے بڑے آرام اور اطمینان سے انہیں تشیع سے آگہی پانے کے لئے عراق آنے کی دعوت دی۔
عراق کا سفر:
بغداد
زیارت کا شوق
اس وقت تیجانی کی منتہائے آرزو عبدالقادر گیلانی کی زیارت تھی اور انھوں نے اپنا شوق زیارت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ "بغداد پہنچا تو دیدار کے اشتیاق نے میری عقل کو ماؤف کردیا تھا اور میں گمان کررہا تھا کہ ابھی بس میں شیخ کی آغوش میں پہنچوں گا! لیکن شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتویں امام کے حرم پہنچنے کے بعد میرے ذہن میں مختلف قسم کے شکوک پیدا ہوئے اور سوالات ابھرے۔
کوفہ و نجف
تیجانی کہتے ہیں: میرا دورہ عراق کوفہ میں امام علی(ع) کے گھر، مسجد کوفہ اور پھر تھوڑے سے فاصلے پر نجف اشرف میں حرم امام علی علیہ السلام کی زیارت اور بالآخر علمائے نجف سے دیدار پر منتج، اور میری زندگی کا اہم موڑ ثابت، ہوا۔
آیت اللہ خوئی کے ساتھ
تیجانی کہتے ہیں:
میں نے اس ملاقات میں آیت اللہ خوئی سے کہا:
شیعہ ہمارے ہاں یہودیوں اور نصارٰی سے بدتر ہیں، کیونکہ یہود و نصاری خدا کی پرستش کرتے ہیں اور موسی اور عیسی پر ایمان و یقین رکھتے ہیں جبکہ شیعہ علی کی عبادت و پرستش کرتے ہیں اور ان کی تنزیہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شیعوں میں ایسے بھی جو خدا کی پرستش کرتے ہیں لیکن امام علی(ع) کو رسول خدا(ص) سے ما فوق اور بالاتر سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ جبرائیل نے امانت میں خیانت کی ہے وہ وحی علی کے بجائے محمد کے لئے لے گئے!
آیت اللہ خوئی متبسم ہوئے اور کہا:
کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان اپنے تمام تر مسلکی اختلافات کے باوجود قرآن پر متفق ہیں؟ کیا جانتے ہو کہ ہمارے پاس قرآن وہی تمہارا قرآن ہے؟ کیا تم نے قرآن کی ان آیات کی تلاوت کی ہے کہ: "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ…”۔ [ترجمہ: اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نہیں ہیں مگر ایک پیغمبر جن کے پہلے سب ہی پیغمبر گزر چکے ہیں۔]؛”مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ…”۔ [ترجمہ: محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت ، آپس میں بڑے ترس والے ہیں۔]؛ "مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ…”۔ (ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور انبیا کے لیے مہر اختتام ہیں۔) پس علی(ع) کہاں ہیں؟ پس اگر ہم شیعیان کا قرآن کہتا ہے کہ محمد(ص) پیغمبر ہیں تو یہ ساری تہمتیں کہاں سے آئیں؟ علاوہ ازیں جبرائیل امین پر خیانت کا الزام ان تہمتوں سے بھی زيادہ سنگین ہے، جب جبرائیل وحی لے کر آئے تو محمد(ص) کی عمر چالیس سال تھی جبکہ علی(ع) ابھی لڑکے ہی تھے، تو بات کیونکر معقول ہوسکتی ہے کہ وہ وحی پہنچانے میں خطا کے مرتکب ہوئے ہیں اور علی اور محمد(ص) کے درمیان فرق نہیں کرسکے ہیں؟ علاوہ ازیں شیعہ واحد مذہب ہے جو انبیاء اور ائمہ(ع) کے لئے عصمت کا قائل ہے، حالانکہ یہ بشر ہیں اور جبرائیل اللہ کے ملک مقرب ہیں اور معصوم عن الخطا ہیں اور خداوند متعال نے انہیں روح الامین کا لقب دیا ہے۔
تیجانی کہتے ہیں:
آیت اللہ خوئی کی باتیں میرے دل و جان پر بیٹھ گئیں اور انھوں نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا؛ اور سوچنے لگا کہ ہم کیوں اس منطق کا ادراک نہ کرسکے؟
ملاقات کے آخر میں آیت اللہ خوئی دسوں جلد شیعہ کتب تیجانی کے لئے ارسال کرنے کی ذمہ داری قبول کی جن کی فراہمی ان کے لئے ممکن نہ تھی۔
شہید آیت اللہ صدر کے ساتھ
تیجانی نجف میں سید محمد باقر صدر سے ملنے گئے اور سب سے زیادہ اثر اس مشہور شیعہ مرجع سے لیا۔ وہ اس ملاقات کے بارے میں کہتے ہیں:
میں نے محسوس کیا کہ اگر ایک مہینے تک ان کے پاس قیام کروں تو سید صدر کے حسن اخلاق، تواضع و انکسار اور عظمت و کرامت کی وجہ سے، ضرور شیعہ ہوجاؤنگا۔ میں جب بھی ان کی طرف دیکھتا وہ تبسم کرتے اور فرماتے: کوئی حکم؟ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ میں چار روز ان کا مہمان رہا اور ایک لمحہ بھی ان سے جدا نہ ہوا سوائے سونے کے اوقات میں۔
انھوں نے اپنی کتاب میں اس دیدار کی تفصیل بیان کی ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے مختلف موضوعات میں سید صدر سے سوالات پوچھے اور انھوں نے کافی شافی جوابات دیئے تیجانی کہتے ہیں:
میں نے سید صدر سے پوچھا کہ "سعودی اکابرین کہتے ہیں کہ صالحین کی قبور پر ہاتھ پھیرنا اور ان کی زیارت کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا، اللہ کے ساتھ شرک ہے، آپ کیا کہتے ہیں:
سید صدر نے جواب دیا:
تمام مسلمان اور یکتا پرست موحدین کا عقیدہ ہے کہ نفع اور نقصان پہنچانے والا (نافع اور ضارّ) خداوند متعال ہی ہے؛ اور اولیاء اللہ تنہائی میں نہ کسی نفع کا سبب ہیں اور نہ ہی کسی ضرر کا؛ پس یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں اور اس موضوع پر شیعہ اور سنی متفق القول تھے۔ رسول اللہ(ص) کے زمانے سے اب تک صرف وہابیوں نے اس اعتقاد کا انکار کیا ہے۔
پھر سید صدر نے ایک واقعہ سنایا جو کچھ یوں تھا:
(لبنان کے نامی گرامی عالم دین) سید عبدالحسین شرف الدین ملک عبدالعزیز آل سعود کے زمانے میں مکہ مشرف ہوئے۔ عید الضحی کا جشن بپا تھا اور سارے علماء عبدالعزیز آل سعود کے پاس جمع ہوئے تھے۔ سید شرف الدین نے سعودی بادشاہ کو قرآن مجید کا ایک نسخہ دیا جس کی جلد بکرے کی کھال سے بنی ہوئی تھی۔ بادشاہ نے قرآن لے لیا اور اس کو احترام کے ساتھ چھوما اور اپنی پیشانی پر رکھا۔ سید شرف الدین نے اسی حال میں کہا: اے بادشاہ! آپ کیوں بکرے کی اس کھال کو چھومتے ہیں اور اس قدر اس کی تظیم کرتے ہیں؟ بادشاہ نے کہا: اس تعظیم کا تعلق جلدوں کے بیچ میں قرآن کے لئے ہے نہ کہ جلد پر لگی کھال کے لئے۔ اور سید شرف الدین نے فورا کہا: بہت اچھے اے بادشاہ! ہم بھی ضریح نبوی(ص) اور حرم کے دروازوں کو اللہ کے نبی(ص) کی تعظیم کی نیت سے چھومتے ہیں ورنہ ہم لکڑی اور پتھروں کی تعظیم کے لئے ایسا نہیں کرتے۔ حاضرین نے تکبیر کی آواز بلند کی اور اسی سال سے ضریح نبوی ! کو مسّ کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ سلسلہ بادشاہ کے انتقال اور ولیعہد کے برسر اقتدار آنے تک جاری رہا اور ولیعہد نے اس کو دوبارہ ممنوع قرار دیا۔
تحقیق کا آغاز:
تیجانی عراق سے شام اور اردن کے راستے سفر حج پر چلے گئے اور سفر حج سے واپسی پر شیعہ اصول عقائد کا مطالعہ شروع کیا۔ اہم ترین کتاب جو انھوں نے اس سلسلے میں پڑھی، سید عبدالحسین شرف الدین کی کتاب "المراجعات” تھی۔ کہتے ہیں:
یہ کتاب در حقیقت میرا کردار ادا کررہی تھی؛ اور ایک محقق کے طور پر ـ جس کو حقیقت جہاں بھی ملے، قبول کرتا ہے ـ یہ کتاب میرے لئے بہت مفید دی اور اس کتاب کا میرے اوپر بڑا حق ہے۔
روش تحقیق:
تیجانی نے نجف میں میں علماء کے ساتھ ملاقات کے بعد "حقیقت تک پہنچنے کے لئے تحقیق کی روش اپنانے کا فیصلہ کیا”۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے:
میں نے اپنے ساتھ عہد کیا کہ اب جبکہ میں ایک طویل اور دشوار بحث کا آغاز کررہا ہوں، بہتر یہی ہے کہ سند و ثبوت تیجانی کے طور پر ان صحیح احادیث کو قطعی مستند اور ثبوت قرار دوں جو شیعہ اور سنی کے درمیان متفق علیہ ہیں، اور ان احادیث کو چھوڑ دوں جن پر ایک مسلک نے اعتماد کیا ہے اور دوسرے مسلک میں وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔ اس اعتدال پسندانہ روش سے میں جذبانی، مذہبی، قومی اور ملکی تعصبات و رجحانات سے بھی محفوظ رہوں گا، شک و تردد کا امکان بھی ختم کردوں گا اور یقین کی بلندیوں بھی پہنچ جاؤں گا اور یہی اللہ کا سیدھا رستہ ہے۔
تألیفات:
تیجانی نے شیعہ مذہب قبول کرنے کے بعد مذہب تشیع کی حقانیت کے اثبات کے سلسلے میں کئی کتابیں تالیف کی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں۔
منفی تشہیری مہم:
تیجانی نے شیعہ حقانیت کے اثبات اور وہابیت کے انحرافی عقائد کے رد و انکار کے سلسلے میں کئی کتب تحریر کیں تو انہیں وہابیوں اور سعودیوں کی شدید تشہیراتی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔
کسی وقت انہوں نے دعوی کیا کہ تیجانی ایک خیالی نام ہے جو شیعہ علماء نے گھڑ لیا ہے؛ بعد ازاں مدعی ہوئے کہ یہ کتابیں اسرائیل لکھوا رہا ہے تاکہ لوگ ان کے بارے میں شک و تردد سے دوچار ہوجائیں اور بعد میں انھوں نے کہا کہ تیجانی شیعہ ہیں نہ ہی سنی، بلکہ مرتد ہو چکے ہیں!۔
ڈاکٹر تیجانی خود اس سلسلے میں کہتے ہیں:
مجھ پر یلغار ہو رہی ہے کیونکہ جو شخص اپنی دعوت اور مذہب میں قویّ اور طاقتور ہوتا ہے، اس کے بارے میں چہ میگوئیوں اور شبہات کی یلغار زیادہ ہوتی ہے۔ میں اس زمرے کا آدمی تھا، میں نے شیعہ مذہب اختیار کرکے بہت زیادہ شور و غوغا کے اسباب فراہم کئے اور بہت سے شبہات کا باعث بنا۔
By urdu • مستبصرین کی سوانح حیات • 0 • Tags: Dr. Tijani, تیونس کے نامور اسلام شناس, سید محمد تیجانی سماوی, مستبصرین