زاہدان کے ایک اہل سنت طالب علم (شریف زاہدی): امام حسین علیہ السلام کی ماتم داری نے مجھے شیعہ بنا دیا

 

حجت الاسلام والمسلمین شریف زاہدی، ایک زاہدانی شیعہ عالم دین ہیں جو دس سال سے زیادہ عرصے سے تشیع کے مکتب فکر اپنائے ہوئے ہیں، نے قم کی جامعہ علوم قرآنی میں طلباء کے سامنے اپنے شیعہ ہونے کا سفر اس طرح بیان کیا:

"میں محمد شریف زاہدی، ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے نیک شہر کا رہائشی ہوں۔ 11 سال تک اہل سنت کے مدارس اور حوزہ جات (دار العلوم) میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، امام حسین علیہ السلام کی مجلس سن کر میرے دل میں ہدایت کی روشنی جاگ اٹھی اور میں نے 1382 ھ ۔ ش میں مفصل تحقیقات کے بعد اہل بیت علیہ السلام کے نورانی مکتب فکر کو اپنا لیا۔”

"میرے اساتذہ میں سے ایک مولوی عیسیٰ ملازہی تھے، جو مسجد محمد رسول اللہ ﷺ کے امام جماعت تھے۔ کبھی کبھی جب انہیں کوئی مسئلہ پیش آتا اور وہ مسجد نہیں جا سکتے تھے تو وہ مجھے نماز جماعت پڑھانے کے لیے بھیجتے تھے۔ 1375 کے عاشورہ کی رات میں ،میں نے اپنے استاد کی جگہ مسجد میں نماز عشاء پڑھائی ۔ تمام لوگ مسجد سے چلے گئے۔ میں مسجد سے نکلنے والا آخری شخص تھا اور میں نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا۔ میں واپس مدرسہ جانا ہی چاہتا تھا کہ  اچانک چابہار کے شیعہ مہاجرین کے امام بارگاہ سے تقریر کی آواز نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ۔”

"میں جاننا چاہتا تھا کہ شیعہ مقرر کیا کہہ رہا ہے کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ شیعہ علماء جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے۔ میں یہ دیکھنے گیا کہ وہ کیا جھوٹ بول رہا ہے؟میں امام بارگاہ کے قریب پہنچا۔ میں اندر جانا چاہتا تھا لیکن میں نے شرم محسوس کی کیونکہ میں نے مولویوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔”

"میں نے آہستہ سے کھڑکی کے پاس بیٹھ کر شیعہ عالم دین کی باتیں سنیں۔ ان کا خطاب امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تھا۔ وہ کہہ رہے تھے: ‘مسند احمد حنبل، سنن ترمذی اور کئی دیگر کتابوں میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ‘الحسن والحسین سیدا شباب الجنة’ – امام حسن اور امام حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ اور اسی طرح وہ اہل سنت کی کتابوں سے حوالہ جات کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔”

"میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ یہ شیعہ عالم دین نے اہل سنت کی کتابوں کا مطالعہ کیسے کیا ہے؟ کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ شیعہ کتابیں نہ پڑھیں؛ وہ گمراہ کن ہیں! وہ – شیعہ – کیوں نہیں کہتے کہ اہل سنت کی کتابیں نہ پڑھیں ورنہ آپ گمراہ ہو جائیں گے؟ صرف ہمارے علماء ہی ایسا کیوں کہتے ہیں؟”

"ان کی تقریر ختم ہو گئی اور انہوں نے مصائب پڑہنا شروع کر دیے۔ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے مصائب پڑہے جو بہت ہی دل دہلا دینے والے تھے۔ اس طرح ایک سنی عالم دین کے طور پر جس نے اس وقت تک امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر کبھی ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا، میرے آنسو بہہ نکلے اور میں بہت رویا۔”

"قبل اس کے کہ ماتم داری ختم ہو، میں اٹھ کر  مدرسہ واپس چلا گیا۔ میں اپنے کمرے میں گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا ؛ لیکن شیعہ عالم کی باتیں میرے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ مجھ سے صبر نہیں ہوا ۔ میں اٹھا اور اسی وقت دار العلوم کی لائبریری گیا تاکہ اس روایت کو تلاش کروں۔ میں نے پہلے بھی “سیدا شباب” کی روایت مسند احمد میں دیکھی تھی؛ لیکن دل کی تسلی کے لیے،  میں نے روایت اور اس کے سند کی تلاش کی۔ میں نے اسے تلاش کر لیا اور وہ مجھے مل گئی  اور پھر میں نے ‘حیات الصحابہ’ کی کتاب اٹھائی اور حیرت سے دیکھا کہ شیعہ عالم دین نے جو کچھ کہا تھا وہ درست تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: یہ وہ باتیں ہیں جو وہ ہماری کتابوں سے نقل کرتے ہیں، لہذا یہ واضح ہے کہ انہوں نے ہماری بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور وہ ہمارے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔”

وہ رات ایک عجیب رات تھی۔ میرے ذہن میں سوالات کا ایک طوفان تھا اور میں جتنا بھی سوچتا تھا میں خود کو مطمئن نہیں کر سکتا تھا! میں نے اپنے آپ سے پوچھا: ‘کیا شیعہ واقعی وہ مشرک ہیں جیسا کہ وہابی تبلیغ کرتے ہیں؟’ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، یہ عجیب ہے! جیسا کہ قرآن اور احادیث میں آیا ہے، مشرک خدا اور نبی ﷺ کے دشمن ہیں اور وہ دین مبین اسلام کے مخالف ہیں۔ تو یہ – شیعہ – کس قسم کے مشرک ہیں جو اللہ اور نبی ﷺ کو مانتے ہیں اور یہاں تک کہ اہل بیت نبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور اپنے منبروں سے نبی اسلام  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور ان کے مصائب( مصیبت)  پر روتے ہیں؟! میرے دل میں آیا  کہ یہ  ممکن  ہی نہیں ہے کہ یہ مشرک ہوں۔”

اس کے بعد میں نے تشیع کے بارے میں تحقیق شروع کی اور پہلی بار ‘مرحوم سلطان الواعظین شیرازی’ کی کتاب ‘شب های پیشاور’ کا مطالعہ کر کے میرے لیے بہت سے حقائق واضح ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ اس کتاب میں اہل سنت کے مصادر سے نقل کی گئی بہت سی باتیں تمام فرقوں کے اہل سنت کے ہاں مسلمہ ہیں اور یہ میرے لیے بہت دلچسپ تھا۔”

"پھر میں نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور مزید کتابوں کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تشیع حق ہے اور 1379 میں ،میں نے تقیہ کیا  اور خفیہ طور پر شیعہ مذہب  اختیار کر لیا اور 1382 میں ،میں نے اسے ظاہر کرنے اور اس کا باضابطہ اعلان کرنے کا  فیصلہ کیا۔”