پروفیسر محمد لیگن ہاوزن کیوں اور کیسے شیعہ ہوئے؛

 

پروفیسر ڈاکٹر محمد لیگن ہاؤزن 3 مئی 1953 کو نیویارک میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام گرے کارل لیگن ہاؤزن (Gary Carl Legenhausen) ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد لیگن ہاؤزن کیتھولک ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد نیویارک کی اسٹیٹ یونیورسٹی سے بی اے اور پھر ٹیکساس کی لاس یونیورسٹی سے ایم اے اور آخر کار رائس یونیورسٹی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر ہاؤزن کا اصرار ہے کہ انہیں پروفیسر کے بجائے حاجی کہہ کر پکارا جائے۔ وہ سنہ 1979 سے 1989 تک ہیوسٹن یونیورسٹی میں مقدمۂ منطق (یا منطق کا تعارف)، جمالیات، سائنس کا فلسفہ، اخلاقیات، فلسفۂ مذہب اور مابعدالطبیعیات کے استاد تھے اور سنہ 1989 میں ایران کی انجمن حکمت و فلسفہ کی دعوت پر ایران آئے اور یہیں تدریس میں مصروف ہوئے اور سنہ 1993 سے شہر قم ميں باقرالعلوم (ع) یونیورسٹی اور امام خمینی (رح) انسٹٹیوٹ کے استاد ہیں۔ پروفیسر لیگن ہاؤزن سنہ 1983 میں جنوبی ٹیکساس کی ایک مسجد میں مسلمان ہوئے تھے۔ وہ ایران میں ہی محترمہ نرجس جوان دل صومعہ سرائی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔

اسلام کے بارے میں حاجی محمد ہاؤزن کا تصور:

دیکھئے میں نے جب اسلام اور تشیع کی طرف دیکھا تو ایسا نہ تھا کہ مجھے تمام سوالات کے جوابات وہیں سے ملے ہوں لیکن جو چیز اسلام میں میرے لئے سب سے زیادہ جاذب نظر تھی وہ یہ تھی کہ یہ دین میرے ذہن میں موجود سوالات جیسے سوالات کا کس قدر استقبال کرتا ہے۔ میں نے بہت سوں کو دیکھا جو ان ہی سوالات کا سامنا کر رہے تھے اور اس کی تحقیقات بھی ان کا جواب ڈھونڈنے کے لئے تھیں۔ یہ خصوصیت میرے ذہن میں برادری کا احساس بھارتی تھی۔ "مجھے اسلام میں ایسے کسی شخص کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس نے کہا ہو کہ یہ آپ کا اعتراض اور اس کا جواب بھی یہ ہے” بالکل ایسا نہ تھا۔ مثلاً میں پوچھتا تھا کہ "عدل کے بارے میں آپ کا تصور کیا ہے؟” اور بعض مسلمان کہتے تھے کہ روایت میں آیا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ "عدالت کے معنی یہ ہیں کہ ہرچیز اپنے مقام پر ہو” میں پوچھتا تھا کہ "اچھا تو اس بات کے معنی کیا ہیں؟ اصولی طور پر ہر چیز کی جگہ کہاں ہے؟” اور وہ جواب دیتے تھے کہ "ہم بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی کیا ہیں اور اس سے کیا تصور اخذ کیا جاسکتا ہے؟”۔ میں نے سوچا کہ تحقیق کہ یہ روش بہت اچھی ہے۔ ایک کلی دائرہ موجود ہے اور محققین اس دائرے کو پر کرنا چاہتے ہیں۔ جو چیز میرے لئے اسلام میں جاذب نظر تھی وہ یہ تھی کہ تحقیق کی دعوت زیادہ سے زیادہ اس دین میں پائی جاتی ہے اور اس راستے میں پہلے سے تیار کردہ جواب موجود نہیں ہے۔ عیسائی دین کے بارے میں میرا تجربہ یہ تھا کہ ایسی حالت موجود نہ تھی اور عیسائیت سوالات کو سمت نہیں دیتی۔ روایتی عیسائی کہتے ہیں کہ ان سوالات کا جواب دیا جاچکا ہے اور یہ جوابات بہت واضح اور روشن ہیں لیکن جب میں مسلمان لڑکوں سے بحث کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ یہاں ایک سمت پائی جاتی ہے۔ وہ روایات اور احادیث کے ذریعے اس سمت کو تلاش کرتے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ زیادہ تر مسائل کے بارے ميں تحقیق کرکے وہ زیادہ روشن جوابات تلاش کرتے ہیں۔

 

مجلہ حوزہ نے ڈاکٹر محمد لیگن ہاؤزن کے ساتھ ایک مکالمہ ترتیب دیا ہے جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:س: آپ ہمارے قارئین کو اپنے آبائی وطن، نشوونما کے ماحول کے بارے میں بتائیں اور آپ نے زندگی کہاں اور کیسے گذاری؟ج: میں 1953 کو امریکہ کے ایک کیتھولک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا اور کیتھولک اسکول سے ہی اپنی تعلیم کا آغاز کیا لیکن ابتداء ہی سے عیسائیت کے سلسلے ميں میرے ذہن میں متعدد سوالات ابھرا کرتے تھے۔ میں ہائی اسکول میں ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت عیسی (ع) خدا نہيں ہیں اور جس طرح کی ہمیں تعلیم دی جارہی تھی اس طرح میں تثلیث کو بھی قبول نہيں کرسکتا تھا لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو ایک عیسائی سمجھتا تھا حتی کہ میرا داخلہ ریاست نیویارک کے علاقے البانی میں اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہوا جہاں میں عیسائیت سے اپنا تعلق کھو گیا اور لادین ہوگیا۔ان حالات میں میں پوسٹ گریجویشن کے لئے ٹیکساس کی لاس یونیورسٹی میں چلاگیا جہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں پڑھانے لگا اور اسی یونیورسٹی میں مختلف اسلامی ملکوں کے مسلم طلبہ سے ملا جن کا تعلق ایران، لبنان، پاکستان، فلسطین، اردن، نائجیریا اور سعودی عرب سے تھا۔

مختلف مسائل میں ان کی رائے میرے لئے دلچسپ تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ دین کے بارے میں ان لوگوں کی نگاہ مختلف ہے اور مجھے اس قسم کی نگاہ اور سوچ کا تجربہ نہیں تھا۔ یہ بات میرے لئے نئی تھی چنانچہ مجھے مزید تحقیق کرنی پڑی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ میں جو پڑھانا چاہوں اس کا انتخاب خود کروں چنانچہ میں نے فلسفۂ دین کا انتخاب کیا اور فلسفۂ دین کے دو سمسٹر پڑھا دیئے اور اسی دوران میں نے طلبہ کے ساتھ بڑے بڑے ادیان پر بحث و مباحثہ کیا اور اسی دوران قدم بقدم اسلام سے قریب ہوا حتی کہ اسلام کو گلے لگایا۔ س: مہربانی کرکے اپنے مسلمان ہونے کی کیفیت کی وضاحت کریں اور بتائیں کہ آپ اس وقت آپ کس قسم کی روحانی اور نفسیاتی کیفیت سے گذر رہے تھے؟ج: جو لوگ دین کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے لئے میرے قبول اسلام کی داستان کافی پیچیدہ ہے کیونکہ میری اس تبدیلی میں علمی اور جذباتی مسائل کا کردار تھا۔ میری جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک ایرانی طالبعلم [شہید] اکبر نوجہ دہی شناسائی ہوئی۔ انھوں نے "تعارف فلسفہ” کا مضمون میرے پاس پڑھا۔ اکبر دو ہفتے میری کلاس سے غیرحاضر رہے حتی کہ مجھے وہ یونیورسٹی کے دفتر میں ملے؛ میں نے کلاس میں نہ آنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا: ہمارے عوام نے ایران میں ایک انقلاب بپا کیا اور میرا خیال ہے کہ یہ بات بہت اہم ہے کہ یہاں کے طلبہ اس انقلاب کی صحیح صورت حال سے آگہی حاصل کریں چنانچہ میں نے ضروری سمجھا کہ اس انقلاب کو طالبعلموں کے درمیان متعارف کرانے کی کوشش کروں چنانچہ میں آپ کی کلاس میں نہيں آسکوں گا۔

 

میں نے ان کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہيں لیکن آپ کا فرض یہ بھی ہے کہ اپنی تعلیم جاری رکھیں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ انقلاب ایران کی معلومات طلبہ تک پہنچانے کا کام میں اپنے ذمے لے لوں چنانچہ انھوں نے قبول کیا اور میں اپنے عہد پر عمل کرنے لگا اور وہ بھی کلاسوں میں باقاعدہ حاضری دینے لگے اور ہم نے مل کر مختلف کام سرانجام دیئے یہاں تک کہ گریجویشن کرکے ایران لوٹ آئے اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ جنگ کے دوران میدان جنگ چلے گئے ہيں اور وہاں فیض شہادت پر فائز ہوچکے ہیں۔میں اکبر کے ساتھ ان کے عقائد کے بارے میں بحث کیا کرتا تھا۔ وہ بہت اچھے طالب علم تھے؛ بڑی صداقت سے بات کرتے تھے اور عقائد میں بہت سنجیدہ تھے اور انہیں اپنے عقائد میں کسی قسم کا کوئی شک نہيں تھا۔ اکبر کے ساتھ ملنے اور متعارف ہونے کے تین سال بعد میں مسلمان ہوا۔ اس زمانے میں میں مساجد میں جاکر مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کیا کرتا تھا اور اسلام کی جاذبیتوں کا زیادہ سے زيادہ ادراک کیا کرتا تھا۔ میرا مقصد اسلام کے بارے میں علمی کام کرنا تھا اور مجھے تجسس تھا کہ مسلمان کس طرح سوچتے ہیں لیکن غیرارادی طور پر جتنی زیادہ تحقیق کرتا اتنی ہی اسلام سے میری محبت میں اضافہ ہوتا تھا؛ میں نے نماز پڑھنا سیکھ لیا تھا اور بعض اوقات نماز بھی ادا کرتا تھا بالخصوص نماز جماعت کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا لیکن ابھی میں نے شہادتین زبان پر جاری نہيں کی تھیں حتی کہ ایک دن مسجد کی پارکنگ میں کئی سیاہ فام امریکی مسلمان میرے قریب آکر کہنے لگے کہ وہ مجھ سے متعارف ہونا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ میں اسلام سے کیونکر روشناس ہوا؟ اور میں نے ان کی موجودگی ميں اور ان کی تجویز پر شہادتین جاری کردیں اور رویا اور باقاعدہ طور پر مسلمان ہوا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھ سے کہا کہ ان کی نماز کی امامت سنبھالوں اور اس کے بعد ہم بہت سے شعبوں میں آپس میں تعاون کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم نے مل کر جنوبی ٹیکساس یونیورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گوکہ یونیورسٹی میں موجود مسلمانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں کی تھی؛ لیکن مجھے ابتداء سے کبھی بھی اس شک کا سامنا نہيں کرنا پڑا تھا کہ شیعہ ہوجاؤں یا سنی؛ کیونکہ میں نہج البلاغہ کا بغور مطالعہ کیا تھا اور چاہتا تھا کہ یا شیعہ اسلام کو قبول کروں یا پھر لادین ہی رہوں۔

س: آپ نے سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں شہادتین جاری کردیں کیا وہاں کوئی خاص واقعہ پیش آیا؟

ج: نہیں! یہ واقعہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی اس کے بارے میں طویل عرصے سے سوچتا رہا تھا لیکن ان امریکی مسلمانوں کی ملاقات نے مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک دلائی یعنی میں جو مسلمانی کی سرحد پر تھا اور دین اسلام کے بہت قریب پہنچ چکا تھا لیکن ان کی ملاقات میرے لئے بہت جاذب و دلچسپ تھی اور ان کا اخلاص میرے لئے خوشآیند تھا اور اور ان کے اخلاص نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دلائی اور مجھے اسلام کے دامن میں پہنچایا۔ س: اسلام کو باقاعدہ قبول کرنے کے بعد آپ کی روزمرہ زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اور آپ نے ایران آنے کا فیصلہ کیونکر کیا؟ج: یونیورسٹی میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ساتھ میرے اختلافات نمایاں ہوچکے تھے؛ وہ مجھے جامعہ کے انتظامی شعبوں میں منتقل کرکے کاغذوں کے کھیل میں الجھانا چاہتے تھے لیکن میں صرف پڑھانا چاہتا تھا چنانچہ میں نے ایران آنے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر سید کمال خرازی اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر تھے اور ایک طالب علم نے مجھے ان سے ملایا اور اس کے بعد میں نے یونیورسٹی سے استعفا دیا اور سنجیدگی سے ایران آنے کا فیصلہ کیا اور میرا منصوبہ یہ تھا کہ دو سال تک ایران میں رہوں اور اسلامی فلسفے کے بارے میں بھی کچھ سیکھ لوں اور اسلام کو زيادہ بہتر سمجھ لوں اور اس کے بعد امریکہ لوٹ کر چلا جاؤں۔