آستان قدس رضوی کا کتابخانہ عالم اسلام اور ایران کا اہم ترین معنوی علمی و ثقافتی مرکز ہے جو کہ تاریخی لحاظ سے گیارہ سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اس میں موجود زیادہ ترکتابیں اور نسخے وقف کے ذریعہ اکھٹے ہوئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مخیر حضرات کس قدر اس بارگاہ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے جس کی بنا پر انہوں نے اپنی قیمتی اور نایاب کتابیں اس کتابخانہ کے لئے وقف کردیں
حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے منسوب ہونے کے باعث عقیدت مندوں نے اپنی نایاب اور قیمتی کتابیں اور خطی و قلمی نسخے اس کتابخانے کے لئے وقف کیں ۔ اس وقت رضوی خطی نسخوں کا گنجینہ انتہائي قیمتی قرآنی نسخوں، خطی کتابوں ،خطاطی و مصوری کے بہترین فن پاروں کے علاوہ کتاب آرائی کا مرکز بن چکا ہے جس کے لئے اب بھی مخیرحضرات اپنے قیمتی اور نفیس قلمی اور خطی آثار وقف کر رہے ہیں اور اپنا نام اس مقدس بارگاہ کے واقفین میں درج کروا رہے ہیں۔
گنجینہ رضوی میں قرآن کریم کا قدیمی ترین نسخہ
اصفہان سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر فن جناب کشواد بن املاس نے جن کا شمار اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں میں ہوتا ہے اور جنھوں نے خاندان رسالت کی مدح و ثنا میں بہت سارے قصیدے بھی کہے ہیں ۳۲۷ ہجری قمری میں قرآن کریم کے جزوات کو امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کے لئے وقف کیا جن میں سے تین جزوات جن کا نمبر ۳۰۱۳،۳۰۱۴،۳۰۱۵ ہے اس وقت گنجینہ رضوی کے خطی نسخوں کے مرکز میں موجود ہیں اور اس کا وقف نامہ بھی اس مشہور خطاط کے ہاتھوں سے تحریر شدہ موجود ہے ۔ خطی نسخوں کی شناخت کرنے والے ماہر جناب سید رضا صداقت حسینی؛ کشواد بن املاس کے قرآنی جزوات کو گنجینہ رضوی کے خطی نسخوں کے مرکز میں پائے جانے والے تمام نسخوں میں سب سے زیادہ قدیمی نسخہ قراردیتے ہيں ، قرآن کریم کا یہ نسخہ آستان قدس رضوی کے مرکزی کتابخانہ کے خطی نسخوں کے مرکز میں بہت ہی حفاظت سے رکھا ہوا ہے ۔ یہ نسخہ کتابت اور فن تزئین کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے یہ ایسا نفیس اور قیمتی فن پارہ ہے جس کی تخلیق کو ۱۱۱۴ سال گزر چکے ہیں اور جسے ۳۲۷ ہجری قمری میں آستان قدس رضوی کے لئے وقف کیا گیا ہے اور اس سے ہمیں کتابخانہ کی تاریخ کا بھی پتہ چلتا ہے یعنی آستان قدس رضوی کا یہ عظیم کتابخانہ ۱۱۰۰ سو سال پرانا کتابخانہ ہے ۔
اس نفیس اور نایاب خطی نسخے کی خصوصیات
جناب رضا صداقت حسینی اس قرآنی جزوہ کی نگارش اور کتابت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتےہیں:’’ اس نفیس اور قیتمی قرآنی نسخہ کی آٰیات دس دس(عشر) اور ابجد کی صورت میں اور خط کوفی میں ایک دوسرے سے علیحدہ تحریر ہوئی ہیں یعنی دس آیاتوں کے اختتام پر حرف’’ی‘‘ لکھا گیا ہے جس کا مطلب دس ہے۔ اس قرآنی نسخہ کی اعراب گزاری زیر،زبریا پیش کے ساتھ نہیں ہے اگر فتحہ(زبر) ہو تو اس حرف کے اوپر ایک نقطہ قرار دیا گیا ہےاگر کسرہ(زیر) ہوتو ایک نقطہ حرف کے نیچے لکھا گیا ہے اور اگر ضمہ(پیش) ہو توکلمہ کے آخر میں ایک نقطہ قرار دیا گیا ہے اسی طرح اگر اعراب مفتوح ہو تو دو نقطےحرف کے اوپر ہیں اور اگر مجرور ہو تو دو نقطے حرف کے نیچے اور اگر مرفوع ہو تو دو نقطے کلمہ کے آخر میں لکھے گئے ہیں‘‘۔ خطی نسخوں کے ماہر جناب حسینی کا کہنا ہے کہ اس قرآنی نسخہ کو خط کوفی اور گیارہ سطروں کے ساتھ حنائی کاغذ پر جس کی پیمائش 11*9 سینٹی میٹر ہے تحریر کیا گیا ہے یہ نسخہ سورہ حمد سے شروع ہوتا ہے اور سورہ بقرہ پر ختم ہو جاتا ہے ۔ نسخے کے پہلے تین صفحات پر سنہری خط کوفی میں قرآن کا وقف نامہ تحریر کیا گیا ہے جسے سنہری اور لاجورد رنگ سے سجایا گیا ہے ، متن قرآن کی سجاوٹ میں کتیبہ قلمدانی کے فن کا استعمال کیا گيا ہے یعنی ہر سورہ کے آغاز میں دائرے یا نیم دائرہ کی شکل میں سنہری شکل میں ایک مستطیل شکل دی گئي ہے ۔ قرآن کے پاروں کے نام سنہری خط کوفی اور سیاہ رنگ میں تحریر کے ساتھ ہیں جن پر شنگرف نقطوں کی اعراب گزاری ہوئی ہے’’علی نفسی و علیهم بیعة و هبته فمن غیّر أو بدّل فقد با باثمه و الله حسیبه و أشهدت الله بذلک علی نفسی و کفی بالله شهیدا وکتب باصبهان فی شهر رمضان سنة سبع و عشرین و ثلثمائة‘‘ یہ وقف نامہ کا متن ہے جسے اس قرآنی نسخے کے واقف جناب کشواد بن املاس نے تحریر کیا ہے ۔ اس عظیم ثقافتی و ہنری میراث کی حفاظت اور اس کی تعلیمات کو عام کرنا ملک کے علمی و تحقیقی طبقہ کے لئے قابل توجہ ہے جس کے لئے بہت زیادہ دقت و ظرافت کی ضرورت ہے ۔ کہا گیا ہے کہ آستان قدس رضوی کے کتابخانوں، عجائب گھروں اور دستاویزاتی مراکز کی ارگنائزیشن کے پاس ایک کروڑ پینتیس لاکھ تاریخی اسناد،میوزیم کے ہزاروں فن پارے اور نوادرات ،بیس لاکھ نشریہ جات، لیتھو گرافی کی ۶۵ ہزار کتابیں اور ایک لاکھ چھ ہزار سے زائد خطی نسخے پائے جاتے ہیں ۔ گنجینہ رضوی کے بعض قیمتی اور نفیس نسخوں اور کتابوں میں ایسے قرآنی نسخے موجود ہیں جو آئمہ معصومین علیہم السلام سے منسوب ہیں اور انہیں ہرن کی کھال پر خط کوفی خط میں تحریر کیا گیا ہے یہ نسخے صدر اسلام سے متعلق قرآن کریم کی کتابت کے قیمتی ترین نسخے ہیں۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی آرٹسٹوں اور خطاطوں کے آثار بھی اس کتابخانہ میں پائے جاتے ہیں جن میں عثمان بن حسین وراق، یاقوت مستعصمی، عبد اللہ طباخ، علاء الدین تبریزی، روزبھان شیرازی، بایسنغر میرزا، ابراھیم سلطان، علیرضا عباسی، محمد ابراہیم قمی، احمد تبریزی، محمد ہاشم لؤلؤی اصفہانی ، وصال شیرازی اور دیگر ایرانی مشہور خطاطوں کے قلمی فن پارے شامل ہیں جن میں سے ہر فن پارہ اسلامی آرٹ اور کتابت کی تاریخ کے ایک حصہ کو بیان کر رہا ہے۔
Ref.: globe.razavi.ir
جولائی 5 2020
آستان قدس کے گنجینہ رضوی میں ۱۱۱۴ سال پرانا انتہائی قدیمی قرآنی نسخہ
آستان قدس رضوی کا کتابخانہ عالم اسلام اور ایران کا اہم ترین معنوی علمی و ثقافتی مرکز ہے جو کہ تاریخی لحاظ سے گیارہ سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے اس میں موجود زیادہ ترکتابیں اور نسخے وقف کے ذریعہ اکھٹے ہوئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مخیر حضرات کس قدر اس بارگاہ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے جس کی بنا پر انہوں نے اپنی قیمتی اور نایاب کتابیں اس کتابخانہ کے لئے وقف کردیں
حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے منسوب ہونے کے باعث عقیدت مندوں نے اپنی نایاب اور قیمتی کتابیں اور خطی و قلمی نسخے اس کتابخانے کے لئے وقف کیں ۔ اس وقت رضوی خطی نسخوں کا گنجینہ انتہائي قیمتی قرآنی نسخوں، خطی کتابوں ،خطاطی و مصوری کے بہترین فن پاروں کے علاوہ کتاب آرائی کا مرکز بن چکا ہے جس کے لئے اب بھی مخیرحضرات اپنے قیمتی اور نفیس قلمی اور خطی آثار وقف کر رہے ہیں اور اپنا نام اس مقدس بارگاہ کے واقفین میں درج کروا رہے ہیں۔
گنجینہ رضوی میں قرآن کریم کا قدیمی ترین نسخہ
اصفہان سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر فن جناب کشواد بن املاس نے جن کا شمار اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں میں ہوتا ہے اور جنھوں نے خاندان رسالت کی مدح و ثنا میں بہت سارے قصیدے بھی کہے ہیں ۳۲۷ ہجری قمری میں قرآن کریم کے جزوات کو امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کے لئے وقف کیا جن میں سے تین جزوات جن کا نمبر ۳۰۱۳،۳۰۱۴،۳۰۱۵ ہے اس وقت گنجینہ رضوی کے خطی نسخوں کے مرکز میں موجود ہیں اور اس کا وقف نامہ بھی اس مشہور خطاط کے ہاتھوں سے تحریر شدہ موجود ہے ۔ خطی نسخوں کی شناخت کرنے والے ماہر جناب سید رضا صداقت حسینی؛ کشواد بن املاس کے قرآنی جزوات کو گنجینہ رضوی کے خطی نسخوں کے مرکز میں پائے جانے والے تمام نسخوں میں سب سے زیادہ قدیمی نسخہ قراردیتے ہيں ، قرآن کریم کا یہ نسخہ آستان قدس رضوی کے مرکزی کتابخانہ کے خطی نسخوں کے مرکز میں بہت ہی حفاظت سے رکھا ہوا ہے ۔ یہ نسخہ کتابت اور فن تزئین کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے یہ ایسا نفیس اور قیمتی فن پارہ ہے جس کی تخلیق کو ۱۱۱۴ سال گزر چکے ہیں اور جسے ۳۲۷ ہجری قمری میں آستان قدس رضوی کے لئے وقف کیا گیا ہے اور اس سے ہمیں کتابخانہ کی تاریخ کا بھی پتہ چلتا ہے یعنی آستان قدس رضوی کا یہ عظیم کتابخانہ ۱۱۰۰ سو سال پرانا کتابخانہ ہے ۔
اس نفیس اور نایاب خطی نسخے کی خصوصیات
جناب رضا صداقت حسینی اس قرآنی جزوہ کی نگارش اور کتابت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتےہیں:’’ اس نفیس اور قیتمی قرآنی نسخہ کی آٰیات دس دس(عشر) اور ابجد کی صورت میں اور خط کوفی میں ایک دوسرے سے علیحدہ تحریر ہوئی ہیں یعنی دس آیاتوں کے اختتام پر حرف’’ی‘‘ لکھا گیا ہے جس کا مطلب دس ہے۔ اس قرآنی نسخہ کی اعراب گزاری زیر،زبریا پیش کے ساتھ نہیں ہے اگر فتحہ(زبر) ہو تو اس حرف کے اوپر ایک نقطہ قرار دیا گیا ہےاگر کسرہ(زیر) ہوتو ایک نقطہ حرف کے نیچے لکھا گیا ہے اور اگر ضمہ(پیش) ہو توکلمہ کے آخر میں ایک نقطہ قرار دیا گیا ہے اسی طرح اگر اعراب مفتوح ہو تو دو نقطےحرف کے اوپر ہیں اور اگر مجرور ہو تو دو نقطے حرف کے نیچے اور اگر مرفوع ہو تو دو نقطے کلمہ کے آخر میں لکھے گئے ہیں‘‘۔ خطی نسخوں کے ماہر جناب حسینی کا کہنا ہے کہ اس قرآنی نسخہ کو خط کوفی اور گیارہ سطروں کے ساتھ حنائی کاغذ پر جس کی پیمائش 11*9 سینٹی میٹر ہے تحریر کیا گیا ہے یہ نسخہ سورہ حمد سے شروع ہوتا ہے اور سورہ بقرہ پر ختم ہو جاتا ہے ۔ نسخے کے پہلے تین صفحات پر سنہری خط کوفی میں قرآن کا وقف نامہ تحریر کیا گیا ہے جسے سنہری اور لاجورد رنگ سے سجایا گیا ہے ، متن قرآن کی سجاوٹ میں کتیبہ قلمدانی کے فن کا استعمال کیا گيا ہے یعنی ہر سورہ کے آغاز میں دائرے یا نیم دائرہ کی شکل میں سنہری شکل میں ایک مستطیل شکل دی گئي ہے ۔ قرآن کے پاروں کے نام سنہری خط کوفی اور سیاہ رنگ میں تحریر کے ساتھ ہیں جن پر شنگرف نقطوں کی اعراب گزاری ہوئی ہے’’علی نفسی و علیهم بیعة و هبته فمن غیّر أو بدّل فقد با باثمه و الله حسیبه و أشهدت الله بذلک علی نفسی و کفی بالله شهیدا وکتب باصبهان فی شهر رمضان سنة سبع و عشرین و ثلثمائة‘‘ یہ وقف نامہ کا متن ہے جسے اس قرآنی نسخے کے واقف جناب کشواد بن املاس نے تحریر کیا ہے ۔ اس عظیم ثقافتی و ہنری میراث کی حفاظت اور اس کی تعلیمات کو عام کرنا ملک کے علمی و تحقیقی طبقہ کے لئے قابل توجہ ہے جس کے لئے بہت زیادہ دقت و ظرافت کی ضرورت ہے ۔ کہا گیا ہے کہ آستان قدس رضوی کے کتابخانوں، عجائب گھروں اور دستاویزاتی مراکز کی ارگنائزیشن کے پاس ایک کروڑ پینتیس لاکھ تاریخی اسناد،میوزیم کے ہزاروں فن پارے اور نوادرات ،بیس لاکھ نشریہ جات، لیتھو گرافی کی ۶۵ ہزار کتابیں اور ایک لاکھ چھ ہزار سے زائد خطی نسخے پائے جاتے ہیں ۔ گنجینہ رضوی کے بعض قیمتی اور نفیس نسخوں اور کتابوں میں ایسے قرآنی نسخے موجود ہیں جو آئمہ معصومین علیہم السلام سے منسوب ہیں اور انہیں ہرن کی کھال پر خط کوفی خط میں تحریر کیا گیا ہے یہ نسخے صدر اسلام سے متعلق قرآن کریم کی کتابت کے قیمتی ترین نسخے ہیں۔اس کے علاوہ مشہور اسلامی آرٹسٹوں اور خطاطوں کے آثار بھی اس کتابخانہ میں پائے جاتے ہیں جن میں عثمان بن حسین وراق، یاقوت مستعصمی، عبد اللہ طباخ، علاء الدین تبریزی، روزبھان شیرازی، بایسنغر میرزا، ابراھیم سلطان، علیرضا عباسی، محمد ابراہیم قمی، احمد تبریزی، محمد ہاشم لؤلؤی اصفہانی ، وصال شیرازی اور دیگر ایرانی مشہور خطاطوں کے قلمی فن پارے شامل ہیں جن میں سے ہر فن پارہ اسلامی آرٹ اور کتابت کی تاریخ کے ایک حصہ کو بیان کر رہا ہے۔
Ref.: globe.razavi.ir
By urdu • موحدین کے مابین اتحاد • 0 • Tags: آستان قدس رضوی, قدیمی قرآنی نسخہ