فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا جشن ولادت

 

جعفر بن محمد (83-148ھ)، امام جعفر صادقؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے چھٹے امام ہیں۔ آپ کی امامت 34 سالوں (114-148ھ) پر محیط تھی جس میں بنی امیہ کے آخری پانچ خلفا یعنی ہشام بن عبدالملک سے آخر تک اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور دوانیقی بر سر اقتدار رہے ہیں۔ آپ کی امامت کے دوران چونکہ بنی امیہ اپنے زوال کے ایام سے گذر رہی تھی اسلئے آپ کو دوسرے ائمہ کی بنسبت زیادہ علمی امور کی انجام دہی کا موقع ملا۔ آپ کے شاگردوں اور راویوں کی تعداد 4000 ہزار تک بتائی گئی ہیں۔ اہل بیتؑ سے منسوب احادیث میں سے اکثر احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب کو مذہب جعفریہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

امام صادقؑ کو اہل سنت کے فقہی پیشواؤں کے ہاں بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ ابوحنیفہ آپ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ علم و معرفت کا حامل سمجھتے تھے۔ بنی امیہ کی حکومت رو بزوال ہونے نیز شیعوں کی جانب سے حاکم وقت کے خلاف قیام کرنے کی دعوت کے باوجود آپ نے قیام نہیں فرمایا۔ ابومسلم خراسانی اور ابوسلمہ کی طرف سے خلافت کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق درخواست کو بھی آپ نے رد فرمایا۔ اسی طرح اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ شریک نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ اپنے پیروکاروں کو بھی قیام کرنے سے پرہیز کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود حاکمان وقت کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے آپ تقیہ کیا کرتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔

امام صادقؑ نے زیادہ سے زیادہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں رہنے، درپیش شرعی سوالات کا جواب دینے، وجوہات شرعیہ کے دریافت اور اپنے پیروکاروں کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے وکالتی نظام تشکیل دیا۔ اس نظام میں آپ کے بعد آنے والے اماموں کے دور میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ غیبت صغرا کے دور میں عروج پر پہنچ گیا۔ آپ کے دور امامت میں غالیوں کی فعالیتوں میں بھی شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے آپ نے اس سوچ کے خلاف نہایت سخت اقدامات انجام دیئے یہاں تک کہ غالیوں کو کافر اور مشرک قرار دیا۔

بعض منابع میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے حکومت وقت کے حکم پر عراق کا سفر کیا اس دوران کربلا، نجف اور کوفہ بھی گئے۔ آپؑ نے امام علیؑ کا مرقد جو اس وقت تک مخفی تھا، مشخص فرمایا اور اپنے پیروکاروں کو دکھایا۔ بعض شیعہ علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؑ منصور دوانیقی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ شیعہ حدیثی منابع کے مطابق آپ نے امام کاظمؑ کو اپنے بعد بعنوان امام اپنے اصحاب کے سامنے معرفی فرمایا تھا، لیکن امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر آپ نے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی سمیت پانچ افراد کو اپنا وصی مقرر کیا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے جن میں اسماعیلیہ، فَطَحیہ اور ناووسیہ وغیرہ شامل ہیں۔

امام صادقؑ کے متعلق لکھی گئی کتابوں کی تعداد 800 تک بتائی جاتی ہے جن میں اخبار الصادق مع ابی حنیفہ و اخبار الصادق مع المنصور جسے محمد بن وہبان دبیلی نے چوتھی صدی ہجری میں لکھا، اس سلسلے کی قدیمی کتابوں میں سے ہیں۔ آپ سے متعلق بعض دوسری کتابوں میں: زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ مصنف سید جعفر شہیدی، الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، مصنف اسد حیدر، پیشوائے صادق، مصنف سید علی خامنہ ای اور موسوعۃ الإمام الصادق، مصنف باقر شریف قَرَشی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

  • نسب، کنیت ، لقب

جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب، شیعہ اثنا عشری کے چھٹے[1] اور اساعیلیوں کے پانچویں امام ہیں۔[2] آپ کے والد ماجد امام محمد باقرؑ اور والدہ ماجدہ ام فروہ بنت قاسم ابن محمد بن ابوبکر ہیں۔[3] کتاب کشف الغمہ کے مطابق چونکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا نسب ماں باپ دونوں طرف سے ابوبکر تک پہنچتا ہے اس لئے امام نے فرمایا: لَقَدْ وَلَدَنِي أَبُو بَكْرٍ مَرَّتَيْن‏(ترجمہ: میں دو مرتبہ ابوبکر سے متولد ہوا ہوں)۔ لیکن بعض علماء من جملہ علامہ شوشتری اور علامہ مجلسی نے اس روایت کو جعلی قرار دیا ہے۔[4] آپ کی مشہور کنیت ابوعبدالله (آپ کے بیٹے عبدالله افطح کی نسبت) ہے جبکہ آپ کو ابو اسماعیل (آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی نسبت) اور ابوموسی (آپ کے فرزند ارجمند امام موسی کاظمؑ کی نسبت) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[5] آپ کا سب سے مشہور لقب "صادق” ہے۔[6]ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے آپ کو اس لقب سے نوازا تھا تاکہ جعفر کذاب سے متمایز ہو سکے؛[7] لیکن بعض کا خیال ہے کہ یہ لقب آپ کو اپنے زمانے میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریکوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا کیوں اس زمانے میں اس شخص کو جو حکومت کے خلاف قیام کرے اور لوگوں کو حکومت کے خلاف ورغلائے، کذاب کہا جاتا تھا۔[8] خود عصر ائمہ میں ہی امامؑ اسی لقب سے مشہور تھے۔[9] اہل سنت کے بعض علماء مانند مالک بن انس، احمد بن حنبل اور جاحظ بھی امام کو اسی نام سے یاد کرتے تھے۔[10] آپ کے دیگر القاب میں صابر، طاہر اور فاضل شامل ہیں ۔

  • انگشتری کے نقش

امام جعفر صادق علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش: اللّہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ۔[11] اور "اللَّہُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِی‏ فَقِنِی‏ شَرَّ خَلقِكَ”۔[12] منقول ہیں۔[13]

  • حالات زندگی

امام جعفر صادقؑ 17 ربیع‌الاول سنہ83 ہجری کو مدینہ میں متولد ہوئے اور سنہ 148 ہجری کو 65 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔[14] بعض آپ کی تاریخ ولادت کو سنہ 80 ہجری لکھا ہے۔[15] ابن قتیبۃ الدینوری نے آپ کی شہادت کو بھی سنہ146 ہجری ثبت کیا ہے[16] جسے سنے یا لکھنے میں غلطی جانا گیا ہے۔[17] آپ کی تاریخ شہادت کے حوالے سے بھی اختلاف پایا جاتا ہے مشہور شیعہ متقدم علماء کا نظریہ یہ ہے کہ آپ کی شہادت شوال کے مہینے میں واقع ہوئی ہے لیکن گذشتہ مصادر میں شہادت کس دن واقع ہوئی اس حوالے سے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لیکن متأخر مصادر میں آپ کی شہادت کو 25 شوال ذکر ہوئی ہے۔[18] مشہور کے مقابلے میں ایک اور نظریہ بھی ہے جیسے بحار الانوار میں مصباح کفعمی سے نقل کیا ہے کہ آپؑ 15 رجب کو اس دنیا سے دار بقا کی طرف کوچ فرماگئے[19] لیکن اس کتاب پر تحقیق کرنے والوں نے اس مطلب کو مذکورہ کتاب میں نہیں پایا ہے۔

  • امامت

امام صادقؑ کی زندگی بنی امیہ کے آخری دس خلفا من جملہ عمر بن عبد العزیز، ہشام بن عبدالملک نیز بنی عباسی کے پہلے دو خلفا، سَفّاح اور منصور دوانیقی کے دور خلافت میں گزری ہے۔[25] امام باقرؑ کو جس وقت ہشام بن عبد الملک نے شام لے گیا تو اس سفر میں امام صادقؑ بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ تھے۔[26] آپ کے دور امامت میں بنی‌امیہ کی حکومت زوال کا شکار ہوئی اور آخر کا اپنی منطقی انجام تک جا پہنچی جس کے بعد بنی عباس نے اسلامی دنیا پر اپنی خلافت قائم کی۔ بنی امیہ اپنی اقتدار کے آخری ادوار میں اپنی بقا کی فکر میں تھی جبکہ بنی عباس اپنی استحکام کی فکر میں، جس کی وجہ سے امام کو علمی اور ثقافتی امور کی انجام دہی کا موقع ملا جس سے آپ نے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے مختلف عملی میدانوں میں شاگردوں کی تربیت فرمائی۔[27] البتہ یہ آزادی صرف دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے میں نصیب ہوئی جبکہ اس سے پہلے بنی امیہ کی بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی نیز نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی تحریک کی وجہ سے آپ بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہا۔[28]

  • دلائل امامت

شیعہ نقطہ نگاہ سے امام، خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے جسے نَصّ (پیغمبر اکرمؐ یا پہلے والے امام نے صراحت کے ساتھ مورد نظر شخص کی امامت کو بیان کیا ہو) کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔[29] کلینی نے اپنی کتاب کافی میں امام صادقؑ کی امامت کو ثابت کرنے کی غرض سے مختلف احادیث نقل کی ہیں۔[30]امام باقرؑ سے منقول احادیث کے مطابق آپ نے اپنے بیٹے جعفر صادقؑ کی امامت پر تصریح فرمائی ہے ان روایات کو ہشام بن سالم، ابو صباح کنانی، جابر بن یزید جعفی، اور عبد الاعلی مولیٰ آل سام نے روایت کی ہیں۔[31]شیخ مفید لکھتے ہیں: امام جعفر صادق ؑ کی جانشینی اور امامت کے سلسلے میں امام باقرؑ کی وصیت کے علاوہ آپ [امام صادقؑ] علم و عمل اور زہد و تقوی میں بھی اپنے بھائیوں، خاندان کے دیگر افراد نیز اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر برتری رکھتے تھے جو خود آپ کی امامت کی دلیل ہے[32] جبکہ رسول اللہؐ کی احادیث میں بھی ائمہ اثنی عشر کے اسما‏ئے گرامی کے ضمن میں آپ کا نام مذکور ہے۔علاوہ ازیں رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں شیعوں کے 12 اماموں کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام جعفر صادقؑ سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[33]

  • وکالتی نظام

تفصیلی مضمون: وکالتی نظام

ایک طرف شیعہ اسلامی دنیا کے مختلف مناطق میں پھیلے ہوئے تھے تو دوسری طرف سیاسی دباؤ کی وجہ سے ائمہ معصومین کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے میں دشواریوں کا سامنا رہتا تھا جو امام صادقؑ کے دور میں پہلے سے بھی پیچیدہ شکل اختیار کر گئی تھی اسی وجہ سے آپ نے مختلف مناطق میں اپنا وکیل اور نمائندہ مقرر فرمایا جو آپ اور آپ کے پیرکاروں کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتے تھے۔[34] وجوہات شرعیہ جیسے خمس، زکات، نذر اور تحائف وغیرہ کی جمع آوری اور انہیں امامؑ تک پہنچانا، شیعوں کی مشکلات سے آگاہی اور ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل و فصل کرنا، امام اور آپ کے پیروکاروں کے درمیان رابطہ برقرار کرنا نیز ان کے شرعی سوالات کا امام سے جوابات دریافت کرنا ان وکلاء کے وظائف میں شامل تھے۔[35] وکالتوں کا یہ سلسلہ آپ کے بعد والے ائمہ کے زمانے میں نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں وسعت آتی گئی یہاں تک کہ امام زمانہؑ کی غیبت صغرا میں یہ سلسلہ نواب اربعہ کی صورت میں اپنی عروج پر جا پہنچا لیکن چوتھے نائب خاص علی بن محمد سمری کی وفات اور غیبت کبرای کے آغاز کے بعد وکلاء کا یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ [36]

  • غالیوں کے ساتھ برتاؤ

تفصیلی مضمون: غلو

امام باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں غالیوں کی سرگرمیوں میں بھی شدت آگئی۔[37] غالی ائمہ کو خدا کا درجہ دیتے تھے یا انہیں پیغمبر مانتے تھے۔ امام صادقؑ نے اس سوچ کی بھر پور مخالفت فرمائی اور لوگوں کو ان کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی منع فرماتے [38] اور انہیں فاسق، کافر اور مشرک جانتے تھے۔[39]ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے غالیوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں سے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نشست و برخاست مت رکھیں، ان کے ساتھ کھانے پینے میں شامل نہ ہوجائیں اور ان سے مصافحہ نہ کریں۔[40] اسی طرح آپ جوانوں کے بارے میں فرماتے تھے: دہیان رکھے کہ غالی تمہارے جوانوں کو گمراہ نہ کریں۔ یہ لوگ خدا کے بدترین دشمن ہیں؛ خدا کو پست اور خدا کے بندوں کو ربوبیت کا مقام دیتے ہیں۔[41]

  • علمی تحریک

امام صادقؑ کے دور امامت میں بنی امیہ اپنی اقتدار اور بقا کی جنگ لڑ رہی تھی اسی بنا پر لوگوں خاص کر شیعوں کو کسی حد تک مذہبی آزادی نصیب ہوئی جس سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے امام عالی مقام نے مختلف موضوعات پر علمی اور عقیدتی مباحث کا سلسلہ شروع فرمایا۔[42] اس علمی اور مذہبی آزادی جو آپ سے پہلے والے اماموں کو کمتر نصیب ہوئی تھی کی وجہ سے علم دانش کے متلاشی آپ کے علمی جلسات میں آزادی سے شرکت کرنے لگے۔[43] یوں فقہ، کلام اور دیگر مختلف موضوعا پر آپ سے بہت زیادہ احادیث نقل ہوئیں۔[44] ابن‌حَجَر ہیتمی کے بقول لوگ آپ سے علم و معرفت کے خزانے دریافت کرتے تھے اور ہر جگہ آپ ہی کا چرچا تھا۔[45] ابوبحر جاحظ لکھتے ہیں کہ ان کی فقہ اور علم پوری دنیا میں پھیل چکا تھا۔[46] حسن بن علی وَشّاء لکھتے ہیں کہ انہوں نے 900 لوگوں کو دیکھا جو مسجد کوفہ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کرتے تھے۔[47]

  • مذہب جعفریہ

تفصیلی مضمون: مذہب جعفریہ

شیعہ عقائد کے مطابق دین اور مذہب کے بنیادی منابع میں جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی سنت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے آپؐ کے بعد آپ کے حقیقی جانشینوں یعنی ائمہ معصومین کی سنت کو بھی وہی حیثیت حاصل ہے۔ بنابراین ائمہ معصومین میں سے ہر ایک نے اپنی بساط اور حالات کے تقاضا کے مطابق دین اور مذہب کی نشر و اشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے ہیں۔ لیکن باقی ائمہ کی نسبت اصول دین اور فروع دین دونوں حوالے سے سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔[48] اسی طرح راویوں کی تعداد کے حوالے سے بھی آپؑ سے روایت کرنے والے راویوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اربلی نے آپ سے روایت کرنے والے راویوں کی تعداد 4000 تک بتائی ہے۔[49] ابان بن تغلب کے مطابق شیعوں میں جب بھی پیغمبر اکرمؐ کے اقوال کے بارے میں اختلاف‌ نظر پیدا ہوتا تو وہ حضرت علیؑ کے اقوال کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب حضرت علیؑ کے اقوال میں اختلاف نظر پیدا ہوتا تو امام صادقؑ کے اقوال کی طرف رجوع کرتے تھے۔[50] فقہ اور کلام میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کی وجہ سے شیعہ اثنا عشریہ کو مذہب جعفریہ نیز کہا جاتا ہے۔[51] موجودہ دور میں امام صادقؑ مذہب جعفریہ کے بانی اور سرپرست کے طور پر مشہور ہیں۔[52]

سنہ 1378 ہجری کو الأزہر یونیورسٹی مصر کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے ان سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مذہب جعفریہ کو سرکاری طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا اور اس مذہب کے تعلیمات پر عمل کرنے کو بھی جائز قرار دیا۔[53]

  • مناظرات اور علمی گفتگو

شیعہ حدیثی منابع میں امام صادقؑ اور دوسرے مذاہب کے متکلمین نیز بعض ملحدین کے درمیان مختلف مناظرات اور علمی گفتگو نقل ہوئی ہیں۔[54] ان مناظرات میں سے بعض میں امام علیہ السلام کے شاگردوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں آپ کی موجودگی میں دوسروں کے ساتھ مناظرہ کئے ہیں۔ ان مناظروں میں امام عالی مقام مناظرے کی نگرانی فرماتے اور کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر خود بھی بحث میں حصہ لیتے تھے۔[55] مثلا ایک شامی جو آپ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے کا خواہاں تھا، امام نے ہشام بن سالم جو علم کلام میں تخصص رکھتا تھا سے اس شامی کے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم دیا۔[56] اسی طرح ایک اور شخص جو خود امامؑ سے مناظرہ کرنا چاہتا تھا، آپ نے فرمایا پہلے جس موضوع پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہے آپ کے شاگردوں سے مناظرہ گرنے کا کہا اور ان پر غالب آنے کی صورت میں اپنے ساتھ مناظرہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اس شخص نے قرآن سے متعلق حُمران بن اَعیَن کے ساتھ، ادبیات عربی سے متعلق اَبان بن تَغلِب کے ساتھ، فقہ میں زُرارہ اور کلام میں مؤمن طاق اور ہِشام بن سالم کے ساتھ مناظرہ کیا اور ہر میدان میں وہ مغلوب ہوا۔[57]

احمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں امام صادقؑ کے مناظرات کو جمع کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:

ایک منکر خدا کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[58]

ابوشاکر دَیصانی کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[59]

ابن ابی العوجاء کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرہ[60]

ابن ابی العوجاء کے ساتھ عالَم کے حدوث پر مناظرہ[61]

خدا کے منکر ایک شخص کے ساتھ خدا کے وجود اور بعض دیگر مسائل پر طولانی مناظرہ‌[62]

ابوحنیفہ کے ساتھ حکم شرعی کے استنباط کے طریقے خاص کر قیاس سے متعلق مناظرہ[63]

معتزلہ کے بعض علماء کے ساتھ حاکم کے انتخاب کا طریقہ کار اور بعض دوسرے فقہی مسائل پر مناظرہ[64]

  • سیاسی اور سماجی سرگرمیاں

سیاسی اور سماجی حوالے سے امام جعفر صادق ؑ کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا سکتا ہے: ایک حصہ بنی امیہ کا دور حکومت اور دوسرا حصہ بنی عباس کا دور حکومت۔ مجموعی طور پر ان دو ادوار میں دس بنی امیہ کے آخری دس اور بنی عباس کے پہلے دو خلفاء کو آپ کے معاصر خلفاء مانے جاتے ہیں۔[65] امام باقرؑ کو جس وقت ہشام بن عبد الملک نے شام تشریف لے جانے پر مجبور کیا تو اس سفر میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ امام صادقؑ بھی تھے۔[66] آپؑ کی امامت کا دورانیہ 34 سالوں پر محیط تھا جس میں بنی امیہ کے آخری پانچ اور بنی عباس کے پہلے دو خلفا سفاح اور منصور کی حکومت تھی۔[67] اس دوران بنی امیہ اپنی بقا کی جنگ ہار گئی جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا پر بنی عباس کی خلافت قائم ہوئی۔ بنی امیہ روبزوال ہونے اور بنی عباس اپنی نوپا اقتدار کو استحکام بخشنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے امام صادقؑ کو علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کیلئے مناسب موقع فراہم ہوا۔[68] البتہ یہ آزادی صرف دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے میں نصیب ہوئی جبکہ اس سے پہلے بنی امیہ کی بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی نیز نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی تحریک کی وجہ سے آپ بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہا۔[69]

  • مسلحانہ قیام سے دوری

اگرچہ امام صادقؑ کی امامت کے دوران بنی امیہ اپنی بقا اور زوال کے کشمکش سے دوچار تھی اور کسی حکومت کو سرنگوں کرنے کا یہ بہترین موقع ہوا کرتا ہے، لیکن امامؑ نے مسلحانہ جد و جہد سے دوری اختیار فرمائی یہاں تک کہ بعض افراد کی طرف سے خلافت قبول کرنے کی پیشکش کو بھی آپ نے مسترد کردیا۔ شہرستانی نے نقل کیا ہے کہ ابومسلم خراسانی نے ابراہیم کی وفات کے بعد امام صادقؑ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کو خلافت کیلئے سب سے زیادہ سزاوار قرار دیتے ہوئے خلافت کرنے کی دعوت دی لیکن امام نے اسے مسترد کرتے ہوئے ان کے خط کا یوں جواب دیا: "نہ تم میرے وفاداروں میں سے ہو اور نہ یہ زمانہ میرا زمانہ ہے۔”[70] آپ نے ابوسلمہ کی طرف سے بھی خلافت کو قبول کرنے کی درخواست کو رد فرماتے ہوئی اس کے خط کو آگ لگا دیا۔[71] اسی طرح آپ نے اس زمانے میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریکوں میں بھی حصہ نہیں لیا یہاں تکہ کہ اپنے چچا زید بن علی کی تحریک میں بھی آپ نے شرکت نہیں فرمائی۔ [72] ایک حدیث کے مطابق امام صادقؑ با وفا اصحاب و اعوان کے نہ ہونے کو مسلحانہ قیام نہ فرمانے کا سبب قرار دیتے تھے۔[73]

عبداللہ بن حسن مثنی کے ساتھ اختلاف رائ

بنی‌امیہ کی حکومت کے آخری سالوں میں بنی‌ ہاشم کا ایک گروہ جن میں عبداللہ بن حسن مثنی اور ان کے بیٹے نیز سفاح اور منصور دوانیقی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کرنے کیلئے اپنے درمیان میں سے کسی ایک کی بیعت کرنے کی خاطر ابواء میں جمع ہوئے۔ اس جلسے میں عبداللہ نے اپنے بیٹے محمد(نفس زکیہ) کو مہدی کے عنوان سے معرفی کیا اور حاضرین سے ان کی بیعت کرنے کا کہا۔

جب امام صادقؑ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: تمہارا بیٹا مہدی نہیں ہے اور نہ ابھی مہدی کے ظہور کا وقت ہے۔ عبداللہ آپ کی باتوں سے ناراض ہوا اور کہا کہ آپ حسد کی وجہ سے یہ باتیں کر رہے ہیں۔ امام صادقؑ نے قسم کھا کر فرمایا میں حسد کی وجہ سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے، تمہارا بیٹا مارا جائے گا اور خلافت سفاح اور منصور دوانیقی کو ملے گا۔[74] رسول جعفریان نے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی اولاد میں پیدا ہونے والے اختلافات کی اصل وجہ اسی داستان کو قرار دیتے ہیں۔[75]

  • حاکمان وقت کے ساتھ آپ کے تعلقات

اگرچہ امام صادقؑ نے اپنے زمانے کے حاکمان وقت کے خلاف مسلحانہ قیام سے دوری اختیار کی لیکن دوسری طرف سے حاکمان وقت کے ساتھ آپ کے تعلقات بھی اچھے نہیں تھے۔ جب اپنے والد ماجد امام محمد باقرؑ کے ساتھ حج مشرف ہوئے تو حج کے مراسم میں آپ نے اہل بیتؑ کو خدا کے برگزیدگان میں سے قرار دیتے ہوئے ہشام بن عبدالملک کی اہل بیتؑ دشمنی کی طرف اشارہ فرمایا۔[76] منصور دوانیقی نے آپ سے کہا کہ آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان کے پاس آجایا کریں، تو آپؑ نے فرمایا: ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم تم سے ڈریں اور تمہارے پاس آخرت کے امور میں سے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم تم سے لو لگائیں نہ تم کسی نعمت سے مالا مال ہو جس کی وجہ سے ہم تمہیں مبارک باد دیں اور نہ تم کسی مصیبت میں مبتلا ہو جس کی خاطر ہم تمہیں تسلیت دینے تمہارے پاس آئیں۔ پس ہمیں تم سے کیا لینا دینا؟![77]

  • گھر کو نذر آتش کرنا

کافی اور مناقب علی بن ابی طالب میں مفضل بن عمر کی روایت کے مطابق حسن بن زید نے مدینہ پر حاکمیت کے دوران منصور کے حکم پر حضرت امام جعفر صادقؑ کے گھر نذر آتش کیا۔[78]۔ اس حدیث کے مطابق اس آتش سوز میں آپ کے گھر کا دروازہ اور دہلیز جل گیا اور امامؑ جلتے ہوئے گھر کے اندر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

میں اَعراق الثَّرَی (لقب حضرت اسماعیل) کا بیٹا ہوں۔ میں ابراہیم خلیل اللہ کا بیٹا ہوں۔[79]

لیکن بعض مؤرخین من جملہ طبری کے مطابق منصور نے سنہ 150 ہجری یعنی امام صادقؑ کی شہادت کے دو سال بعد حسن بن زید کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔[80]

  • تقیہ کرنا

سوائے دوسری صدی ہجری کے تیسرے عشرے کے جس میں بنی‌امیہ کی حکومت کا زوال ہوا باقی سالوں میں بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفا ہمیشہ آپ اور آپ کے پیرکاروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں سیاسی دباؤ میں شدت آگئی تھی۔[81] بعض روایات کے مطابق منصور دوانیقی کے کارندے حتی ان لوگوں کو بھی پکڑ کر گردن مار دیتے تھے جو آپ کے پیروکاروں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھتے تھے۔ اس بنا پر آپؑ تقیہ فرماتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے تھے۔[82]

امام صادقؑ نے سفیان ثوری سے جو آپ سے ملاقات کیلئے آئے تھے، فرماتے ہیں آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ ہم دونوں حکومت کی کڑی نگرانی میں ہیں۔[83] ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ امام صادقؑ نے ابان بن تغلب سے کسی ممکنہ خطرات کے پیش نظر لوگوں کے پوچھے گئے فقہی سوالات کا جواب اہل سنت علماء کے نظریے کے مطابق دینے کا حکم دیا۔[84] اسی طرح امام صادقؑ سے بعض ایسی احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں آپ اپنے پیروکاروں کو تقیہ کرنے کی سفارش فرماتے ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض میں تقیہ کو نماز کے برابر کا درجہ دیا گیا ہے۔[85]

  • اخلاقی خصوصیات

حدیثی منابع میں امام صادقؑ کی اخلاقی خصوصیات میں سے زہد، انفاق، فراوانی علم، طولانی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ جیسی اخلاقی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن طلحہ امام صادقؑ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ عظمت و بزرگی کا حامل شخص قرار دیتے ہیں جو علم و معرفت کے اعلی درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی، عبادت و بندگی نیز قرآن مجید کی تلاوت میں اپنے زمانے میں شہرت رکھتے تھے۔[86] مالک بن انس جو اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں، امامؑ کے متعلق کہتے ہیں: جتنی مدت جعفر بن محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا اسے تین حالتوں میں سے ایک حالت میں پایا، یا نماز کی حالت یا روزہ داری کی حالت میں یا ذکر پڑھنے کی حالت میں۔[87]

بحار الانوار کے مطابق امامؑ نے کسی فقیر کے سوال کرنے پر اسے چار سو درہم عطا فرمایا اور جب اس کی شکر گزاری کو دیکھا تو اپنی انگوٹھی جو دس ہزار درہم کی تھی، اسے بخش دیا۔[88] آپؑ کے انفاق‌ فی سبیل اللہ سے متعلق بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ کتاب کافی میں آیا ہے کہ آپ رات کو کسی تھیلے میں روٹی، گوشٹ اور درہم و دینار رکھ کر بطور ناشناخت غریبوں کے دروازوں پر جاتے تھے اور مذکورہ چیزوں کو ان میں تقسیم کرتے تھے۔[89] ابوجعفر خثعمی نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ایک دفعہ درہم و دینار سے بھرا ہوا ایک تھیلہ مجھے دیا اور اسے بنی ہاشم کے کسی فرد کو دینے کا کہا لیکن یہ اسے یہ نہ کہا جائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے۔ خثعمی کہتے ہیں جب اس شخص نے وہ رقم لے لیا تو اس کے بھیجنے والے کیلئے دعا کیا اور امام صادقؑ کی شکایت کرنا شروع کیا کہ اتنے مال دولت کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا۔[90]

  • عراق کا سفر

سفاح اور منصور دوانیقی کی طرف سے دربار میں طلب کئے جانے کی وجہ سے امام صادقؑ کو کئی بار عراق کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ عراق سفر کے دوران آپ کربلا، نجف، کوفہ اور حیرہ بھی تشریف لے گئے۔[91] محمد بن معروف ہلالی نقل کرتے ہیں کہ جب امام صادقؑ حیرہ تشریف لے گئے تو لوگوں کی کثیر تعداد آپ کی استقبال کیلئے جمع ہو گئے تھے یہاں تک کہ مقلاقاتیوں کی کثرت کی وجہ سے کئی دن تک امام سے ملاقات نہ ہو سکی۔[92]

مسجد کوفہ میں مسلم بن عقیل کی قبر کے نزدیک واقع محراب امام صادق اور مسجد سہلہ میں مقام امام صادق آپ کی عراق تشریف آوری کا پتہ دیتا ہے۔[93] کربلا میں امام حسینؑ کی زیارت آپ کے اس سفر کے دیگر اہم سرگرمیوں میں شامل ہے۔[94] کربلا میں دریائے حسینیہ کے کنارے بھی آپ سے منسوب ایک مقام ہے جو محراب امام صادق کے نام سے مشہور ہے۔[95]

  •     حضرت علی کی قبر کی نشاندہی

بعض احادیث میں امام صادقؑ کی طرف سے قبر امام علیؑ کی زیارت کرنے کا عندیہ بھی ملتا ہے۔[96] انہی احادیث کے مطابق آپ نے اپنے پیروکاروں کو قبر امام علیؑ کی نشادہی کرائی جو اس سے پہلے مخفی تھی۔ کلینی کے مطابق ایک دن آپ نے یزید بن عمرو بن طلحہ کو حیرہ اور نجف کے درمیان کسی مقام پر لے گیا اور وہاں آپ نے اسے حضرت علیؑ کی قبر کی نشاندہی کرائی۔[97] شیخ طوسی فرماتے ہیں: امام صادقؑ امام علیؑ کی قبر کے نزدیک تشریف لائے وہاں نماز پڑھی اور یونس بن ظَبیان سے فرمایا: یہ امیر المؤمنین حضرت علیؑ کا مزار ہے۔[98]

  • شاگرد اور روات

شیخ طوسی اپنی رجال میں تقریبا 3200 راویوں کا نام لیتے ہیں جنہوں نے امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔[99] شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں آپ کے راویوں کی تعداد 4000 تک نقل کرتے ہیں۔[100] کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے راویوں سے متعلق ابن‌ عقدہ کی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے بھی ان کی تعداد 4000 بتائی ہیں۔[101]

اصول اربع مائہ (شیعوں کے چار لاکھ اصول) کے اکثر مصنفین امام صادق کے شاگرد تھے۔[102] اسی طرح دوسرے ائمہ کی نسبت آپ کی شاگردوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہیں جو ائمہ معصومین کے اصحاب میں سب سے زیادہ مورد اعتماد راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔[103] آپ کے بعض مشہور شاگردوں کے نام درج ذیل ہیں:

زُرارَۃ بن اَعین

بُرَید بن معاویہ

جَمیل بن دَرّاج

عبداللہ بن مُسکان

عبداللہ بن بُکَیر

حَمّاد بن عثمان

حماد بن عیسی

اَبان بن عثمان

عبداللہ بن سنان

ابو بصیر

ہشام بن سالم

ہشام بن حَکَم

امام صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔[104] اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔[105] اسی طرح علم کلام میں تخصص رکھنے والے آپ کے دیگر شاگردوں میں حُمران بن اَعیَن، قیس ماصِر اور ہشام بن حَکَم کا نام لیا جا سکتا ہے۔[106]

اہل سنت

اہل سنت کے بعض علماء اور ان کے فقہی پیشوا بھی امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں۔ شیخ صدوق نے مالک بن انس سے نقل کی ہے کہ وہ ایک مدت تک امام صادقؑ کے پاس جاتے تھے اور آپؑ سے حدیث سنتے تھے۔[107] مالک بن انس نے اپنی کتاب مُوَطَّأ میں امام صادقؑ سے حدیث نقل کی ہیں۔[108] ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں کہ اہل سنت بعض بڑے علماء مانند یحیی بن سعید، ابن جریح، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، ابوحنیفہ، شعبۃ بن الحجاج اور ایوب سختیانی نے امام صادقؑ سے روایت کی ہیں۔[109]

  • منتخب کلام

آپ سے نقل ہونے والی بعض مشہور احادیث درج ذیل ہیں:

حدیث توحید مُفَضَّل: توحید مُفَضَّل ایک طولانی حدیث ہے جسے امام صادقؑ نے چار نشستوں میں مُفَضَّل بن عمر کو املاء فرمایا۔[110] اس حدیث میں آفرینش جہاں، خلقت انسان، دنیائے حیوانات کی حیرت انگیزیاں، آسمان اور زمین کی حیرت انگیزیاں، موت کی حقیقت اور اس کا فلسفہ وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔[111]

حدیث عِنوان بَصری: حدیث عِنوان بَصری میں امام صادقؑ نے عبودیت کی تعریف کے بعد عِنوان بصری نامی شخص کے لئے ریاضت نفس، بردباری اور علم و معرفت کے حوالے سے مختلف دستورالعمل‌ بیان فرمایا ہے۔[112]

مقبولہ عُمَر بن حَنظَلہ:‌ اس حدیث میں قضاوت اور تعارض روایات کے موضوع پر بحث فرمائی ہے۔[113] ولایت فقیہ کے قائلین اس مسئلے پر اسی حدیث سے استناد کرتے ہیں۔[114]

  • آپ کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

اہل سنت اکابرین بھی امام صادقؑ کے مقام و منزلت کے معترف تھے۔ ابوحنیفہ آپؑ کو مسلمانوں میں سب سے زیادہ دین شناس اور علم و معرفت کا حامل قرار دیتے تھے۔[115] ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ اہل سنت اکابرین من جملہ ان کے ائمہ ابوحنیفہ، احمد بن حنبل اور شافعی مستقیم یا غیر مستقیم امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں اسی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے که حقیقت میں فقہی اعتبار سے مذہب اہل سنت کی جڑیں فقہ شیعہ سے ہی نشو و نما پائی ہے۔[116] ان تمام باتوں کے باوجود فقہ اہل سنت میں آپؑ کے معاصر فقہاء جیسے اوزاعی اور سفیان ثوری وغیرہ کے نظریات سے تو استفادہ کیا گیا ہے لیکن امام صادقؑ کے نظریات سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔[117] اسی بنا پر بعض شیعہ علماء مانند سید مرتضی نے اہل سنت علماء کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[118]

  • شہادت

شیعہ اور سنی اکثر قدیم منابع میں امام صادقؑ کی شہادت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔[119] یہاں تک کہ بعض شیعہ علماء من جملہ شیخ مفید نے آپ کی رحلت کو طبیعی موت قرار دیا ہے۔ لیکن بعض علماء اس حدیث کی بنا پر جس میں آیا ہے کہ ائمہ معصومین کو یا تلوار سے شہید کیا جائے گا یا زہر سے، کہتے ہیں کہ آپ کو بھی شہید کیا گیا تھا۔[120] اس کی تصریق کرتے ہوئے شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ آپ کو منصور دوانیقی کے حکم پر زہر سے شہید کیا گیا تھا۔[121]

  • آپ کی وصیت

احادیث کے مطابق امام صادقؑ نے اپنی زندگی میں کئی بار امام کاظمؑ کو اپنے بعد امام کے عنوان سے اپنے خاص اصحاب کے سامنے تعارف کرایا تھا؛[122] لیکن بنی عباس کی سیاسی دباؤ اور امام کاظمؑ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنے بعد پانچ افراد من جملہ منصور دوانیقی کو اپنا وصی بنایا۔[123] اسی بنا پر حتی آپ کے بعض برجستہ اصحاب مانند مؤمن طاق اور ہشام بن سالم بھی آپ کی جانشینی کے مسئلے میں مردد تھے۔ یوں یہ لوگ شروع میں عبداللہ افطح کی طرف چلے گئے اور ان سے کچھ سوالات کئے لیکن وہ عبداللہ کے جواب سے قانع نہیں ہوئے تو وہ امام موسی کاظمؑ کے پاس گئے اور وہی سوالات آپ سے بھی کئے اور جب آپ کے جواب سے وہ قانع ہوئے تو انہوں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا۔[124]

  • شیعوں میں گروہ بندی

امام صادقؑ کی شہادت کے بعد شیعوں میں مختلف فرقے وجود میں آگئے۔ بعض نے آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی وفات سے انکار کرتے ہوئے آپؑ کے بعد ان کی امامت کے قائل ہو گئے جو بعد میں اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہی میں سے بعض لوگ جب اسماعیل کے زندہ ہونے سے مأیوس ہوئے تو ان کے بیٹے محمد کی امامت کے قائل ہوئے۔ بعض شیعہ عبداللہ اَفْطَح کو امام ماننے لگے یہ گروہ فَطَحیہ کے نام سے مشہور ہوئے؛ لیکن یہ گروہ عبدالله کی وفات کے بعد جو امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے صرف 70 دنوں بعد واقع ہوئی، امام موسی کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوئے۔ بعض شیعہ ناووس نامی شخص کی پیروی کرتے ہوئے خود امام صادقؑ کی امامت پر توقف کیا یہ گروہ بعد میں فرقہ ناووسیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور بعض شیعہ محمد دیباج کی امامت کے معتقد تھے۔[125]

  • آپ کا یوم شہادت

ایران میں 25 شوال کو آپ کی تاریخ شہادت کے عنوان سے سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ کام آیت اللہ کاشانی کی سفارش پر ڈاکٹر مصدق کے حکم سے انجام پایا۔[126] موجودہ دور میں قم میں موجود شیعہ مراجع تقلید اس دن آپ کی شہادت کے عنوان سے عزاداری کرتے ہیں برہنہ پاؤں ماتمی دستوں میں خود شرکت کر کے عزاداری کرتے ہیں جو مختلف علاقوں سے برآمد ہو کر حرم حضرت معصومہ میں اختتام پذیر ہوتے ہیں۔[127]

  • تألیفات امام صادق

بعض شیعہ حدیثی کتابوں میں امام صادقؑ سے منسوب بعض مکتوب اور رسالہ جات نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض کا آپ سے نقل ہونے میں شکوک و شبہات پایا جاتا ہے لیکن ان میں سے بعض، کافی جیسی معتبر کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کے معتبر ہونے کا امکان زیادہ قوی ہے ذیل میں ان میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے:

امام صادقؑ کا اپنے اصحاب کے نام خط: یہ خط امامؑ کے ان سفارشات پر مشتمل ہے جو آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں کیلئے ارشاد فرمایا ہے۔ یہ خط کتاب کافی میں بھی آیا ہے۔

رسالہ شرایع الدین بہ روایت اَعمَش: یہ رسالہ اصول دین اور فروع دین کے متعلق ہے جسے ابن بابویہ نے نقل کیا ہے۔

قرآن کی تفسیر سے متعلق ایک خط کا ایک حصہ۔

اہل قیاس کے نام لکھے گئے ایک خط کا ایک حصہ جس میں آپ نے ان پر تنقید فرمایا ہے۔

الرسالۃ الأہوازیہ: یہ خط آپ نے اہواز کے گورنر نجاشی کو تحریر فرمایا تھا جس کا متن شہید ثانی کی کتاب کشف الریبہ میں آیا ہے۔

توحید المُفَضَّل یا کتاب فکِّر: یہ رسالہ خداشناسی سے متعلق امامؑ کے ارشادات کا خلاصہ ہے جسے آپ نے مُفَضَّل بن عمر کیلئے ارشاد فرمایا تھا اور اس کتاب میں "فَکِّر یا مُفَضَّل” (اے مفضل غور و فکر کرو) کی تکرار کی وجہ سے قدیم زمانے میں یہ کتاب "کتاب فَکِّر” کے نام سے بھی مشہور تھی۔

رسالہ اَہلیلَجہ: اس رسالے میں امام صادقؑ نے کسی ہندوستانی ڈاکٹر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی غرض سے گفتگو فرمائی ہے۔ نجاشی نے اس کتاب کو "بِدءُالخَلق و الحَثُّ عَلَی الاِعتبار” کے نام سے یاد کیا ہے۔

تفسیر امام صادقؑ کے نام سے مشہور کتاب۔

تفسیر النُعمانی۔[128]

بعض کتابیں ایسی ہیں جنہیں آپؑ کے شاگردوں نے آپ کے ارشادات سے اقتباس کرتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سے بعض جو شایع ہوئی ہیں درج ذیل ہیں:

"الجعفریات” یا "الاَشعَثیات” مصنف محمد بن محمد بن اشعث۔

نثر الدُرَر: اس کتاب کے متن کو ابن شُعبہ حَرّانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

الحِکَم الجعفریہ

امامؑ کے مختصر کلام کا مجموعہ جس کے راوی سلمان بن ایوب ہیں اور اس کا متن کتاب فرائِدُ السَمَطَین میں جوینی نے نقل کیا ہی۔[129]

  • کتابیات

امام صادقؑ کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ کتابیات امام جعفر صادقؑ نامی کتاب میں تقریبا 800 کتابوں کا نام لیا گیا ہے جو شایع ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے اخبار الصادق مع ابی حنیف اور اخبار الصادق مع المنصور جسے محمد بن وہبان دبیلی (چوتھی صدی) اور اخبار جعفر بن محمد مصنف عبد العزیز یحیی جلودی (سنہ 4 ہجری) سب سے قدیمی‌ کتابوں میں سے ہیں۔[130] امام صادقؑ کے بارے میں لکھی گئی بعض عربی و فارسی کتابیں درج ذیل ہیں:

الامام الصادقؑ و المذاہب الاربعۃ، تحریر اسد حیدر۔ یہ کتاب امام صادقؑ و مذاہب چہارگانہ، کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے[131]

کتابنامہ امام صادقؑ مولف رضا استادی

الإمام الصادق، تحریر محمد حسین مظفر: اس کتاب کو سید ابراہیم سید علوی نے امام جعفر صادقؑ کی زندگی سے متعلق چند اوراق کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[132]

الإمام جعفر الصادق، تألیف عبد الحلیم الجُندی

زندگانی امام صادق جعفر بن محمدؑ (کتاب)، تحریر سید جعفر شہیدی

پرتوی از زندگانی امام صادقؑ، تحریر نوراللہ علی‌ دوست خراسانی

پیشوای صادق، تحریر سید علی خامنہ‌ای

موسوعۃ الإمام الصادق، تألیف باقر شریف قَرَشی

موسوعۃ الامام جعفر الصادق تحریر سید محمد کاظم قزوینی، اب تک اس کتاب کی 15 جلدیں شایع ہوئی ہیں۔ یہ کتاب 60 جلدوں پر مشتمل ہوگی۔[133]

موسوعۃ الإمام جعفر الصادق، تحریر ہِشام آل قُطَیط

مغز متفکر جہان شیعہ، تحریر ذبیح اللہ منصوری۔ مصنف نے اسے مرکز مطالعات اسلامی استراسبورگ نسبت دی ہے اور خود کو مترجم معرفی کیا ہے۔ لیکن بعض نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی کسی کتاب کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔[134]

  • حوالہ جات

جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۳۹۱.

صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۱۱۰، ۱۱۹.

مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۱۸۰.

مجلسی، بحار الانوار، ج۲۹، ص۶۵۱، ۶۵۲.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۱.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۱.

صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ش، ص۳۱۹؛ «القاب الرسول و عترتہ»، ص۶۰، ۶۱.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۱.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۱.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۱.

اللہ ہر چیز کا خلق کرنے والا ہے: کلینی، الکافی، ج 6، ص 473۔

خداوندا تو میرا سہارا اور قابل اعتماد ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے مجھے محفوظ رکھ: کلینی، وہی ماخذ۔کلینی، الکافی، ج 6، ص 473

نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج3، ص302۔ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام‏، ج2، ص165۔

مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۱۸۰.

اربلی، کشف الغمۃ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۶۹۱.

ابن قتیبۃ الدینوری، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۱۵.

نک پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۷.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۷.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۲.

مفید، الارشاد ص553.

کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۷-۳۱۱.

شہرستانی، ملل و نحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۴۸.

اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۲۱۳، ۲۱۴.

نک: مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۰۹.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۶.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴۷.

جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.

فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۷.

کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۶، ۳۰۷.

ر.ک: المفید، الارشاد ص526-527.

مفید، الارشاد ص528-527.

مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی 59ویں آیت ِاطیعوا اااللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الہداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی 33ویں آیت انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، کفایة الأثر ص 157۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نےرسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

جباری، سازمان وکالت ائمہ، ج۱، ۱۳۸۲ش، ص۴۷-۵۰.

جباری، سازمان وکالت ائمہ، ج۱، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۰، ۳۲۰، ۳۳۲.

جباری، بررسی تطبیقی سازمان دعوت عباسیان و سازمان وكالت اماميہ (مراحل شكل‌گیری و عوامل پیدایش)، قم، پاييز۱۳۸۹ش، ص۷۵ـ۱۰۴.

جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷.

جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷، ۴۰۸.

کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۳۰۰.

کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۹۷.

شیخ طوسی، امالی، ۱۴۱۴، ص۶۵۰.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۸۴ش، ص۴۷-۶۰.

جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵، ۴۳۶.

شہیدی، زندگانی امام صادقؑ، ۱۳۸۴ش، ص۶۱.

ابن‌حجر ہیتمی، الصواعق المحرقہ، چاپ قاہرہ، ۱۴۲۹ق/۲۰۰۸م، ص۵۵۱.

رسائل الجاحظ، ص۱۰۶.

نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶ق، ص۳۹.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۲۰۵.

اربلی، کشف الغمۃ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۷۰۱.

نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۶ق، ص۱۲.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۸۴ش، ص۶۱.

نجفی، «امام صادقؑ رئیس مذہب جعفری»، سایت سازمان تبلیغات اسلامی، تایخ درج: ۹ شہریور ۱۳۹۲، تاریخ بازدید: ۱۰ آیان ۱۳۹۶.

بی‌آزار شیرازی، ہمبستگی مذاہب اسلامی، ۱۳۷۷ش، ص۳۴۴.«شیخ محمود شلتوت»، سایت مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی.«فتوای تاریخی شیخ شلتوت مفتی اعظم عالم تسنن و رئیس دانشگاہ الازہر مصر»، درس‌ہایی از مکتب اسلام، ش۳، ۱۳۳۸.

کلینی، اصول کافی، ج۱، ۱۴۰۷ق، ص ۷۹، ۸۰، ۱۷۱-۱۷۳؛‌ شیخ مفید، اختصاص، ۱۴۱۳ق، ص۱۸۹، ۱۹۰.

کلینی، اصول کافی، ج۱، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۱-۱۷۳.

کلینی، اصول کافی، ج۱، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۱-۱۷۳.

کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۷۵-۲۷۷.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۳۱-۳۳۳.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۳۳.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۳۵، ۳۳۶.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۳۶.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۳۶، ۳۵۲.

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۶۰-۳۶۲

طبرسی، احتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۳۶۲-۳۶۴.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۶.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴.

شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴۷.

جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.

شہرستانی، الملل والنحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۷۹.

مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۲۵۴.

پاکتچی، «امام جعفر صادق»، ص۱۸۳، ۱۸۴.

ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ش، ج‏۴، ص۲۳۷.

ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۹۸۷م/۱۴۰۸ق، ص۱۸۵، ۱۸۶.

جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۳۷۱.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۶، ص۳۰۶.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۱۸۴.

کلینی،الکافی1/473 باب مولد ابی جعفر۔ابن شہر آشوب، مناقب علی بن ابی طالب3/362۔

کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۷۲.

ابن شبہ، تاریخ المدینہ1/17۔طبری، تاریخ طبری 6/284۔تاریخ کامل 5/593۔ذہبی،تاریخ الاسلام9/54۔

جعفریان، حیات فکری‌ سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.

جعفریان، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.

ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۴۸.

رجال کشی، ص۳۳۰.

فتال نیشابوری، روضة الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۹۳.

اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۶۹۱.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۱۶.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۶۱.

کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۸.

ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ش، ج‏۴، ص۲۷۳.

مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۱۲۶و۱۳۰.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۷، ص۹۳، ۹۴.

مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۱۲۹.

مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۱۳۰.

مظفر، الامام الصادق، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج۱، ص۱۳۰.

شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۵و۳۶.

کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۵۷۱.

شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۵.

طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، موسسۃ آل البیت، ج۲، ص۴۱۹-۶۷۹

مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۵۴.

محدث قمی، الکنی و الالقاب، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۵۸.

پاکتچی، «جعفر صادق، امام»، ص۱۸۷.

پاکتچی، «جعفر صادق، امام»، ص۱۸۷.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۹۹.

کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۷۵-۲۷۷.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۹۹.

صدوق، خصال، ص۱۶۸؛ صدوق، امالی، ص۱۶۹؛ علل الشرایع ص۲۳۴.

مالک بن أنس، موطأ، ۱۴۲۵ق، ص۱۰.

ابن حجر الہیتمی، الصواعق المحرقۃ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۵۸۶.

مفضل بن عمر، توحید مفضل، ترجمہ میرزایی، ۱۳۷۳ش.

مفضل بن عمر، توحید مفضل، ۱۳۷۳ش.

مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۲۴-۲۲۶.

کلینی، کافی، ج۱، ص۶۷.

امام خمینی، الحکومۃ الاسلامیۃ، ۱۴۲۹ق/۲۰۰۸م، ص۱۱۵-۱۲۱؛ مصباح یزدی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۰.

ذہبی، تذکرہ الحفاظ، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۲۶.

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغه، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۱۸.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۲۰۶.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۲۰۶.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۷.

پاکتچی، «جعفر صادقؑ، امام»، ص۱۸۷.

ابن بابویہ، الاعتقادات، ۱۳۸۹ش، ص۹۸.

کشّی، رجال کشی، ص۲۸۲، ۲۸۳.

پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص۴۱۴.

کشّی، رجال کشی، ص۲۸۲، ۲۸۳.

نوبختی، فرق الشیعہ، ص۶۶-۷۹.

رازی، تاریخ فرہنگ معاصر، ش۶.

«پیادہ روی مراجع عظام تقلید در عزای صادق آل محمدؑ»، سایت خبرگزاری مہر، تاریخ درج: ۹ شہریور ۱۳۹۲ش، تاریخ بازدید: ۱۰ آبان ۱۳۹۶ش.

کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص۲۱۸، ۲۱۹.

کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص۲۱۸، ۲۱۹.

کتابچی، «جعفر صادق، امام»، ص۲۱۹.

نگاہ کنید بہ، اسد، امام صادقؑ و مذاہب اہل سنت، ترجمہ محمد حسین سرانجام و دیگران، ۱۳۹۰ش.

مظفر، صفحاتی از زندگانی امام جعفر صادق، ترجمہ سیدعلوی، ۱۳۷۲ش.

«گزارشی از موسوعہ الامام الصادق علیہ السلام»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ بازدید: ۸ شہریور ۱۳۹۶.

معمای ہمایش اسلام‌ شناسی استراسبورگ، مہدی شاکری و بابک فرمایہ، سایت امام موسی صدر نیوز.