24 ذی الحجہ، روز مباہلہ، عظمت اہل بیت (ع) کی ایک زندہ و جاوید سند

 

آیت مباہلہ:

سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس ( حضرت عیسی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔

سورہ آل عمران آیت 61/ترجمہ کنز العرفان، مفتی محمد قاسم

واقعہ مباہلہ:

مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے. نبی (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور ص کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔

اس آیت کے نزول کے بعد نبی ص اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ اور داماد حضرت علی کو لے کر گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اور اکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔

دعوت مباہلہ:

مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے ۔

مباہلہ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سو فی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتا دیتا ہے ۔

کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔

یہ مسلّم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے، کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا ۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کیے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔

اسلامی روایات میں ہے کہ: مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی بارے میں بتاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شور و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور و غل کا سہارا لیا جائے، اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (ع) کو گود میں لیے حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو ہمراہ لیے آ پہنچے ہیں اور انہیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو، تم آمین کہنا ۔

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔

فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے، کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے۔

بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔

اس آیت میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا، اس لیے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خارجی اثر پیش نظر تھا ۔

مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تا کہ سب کے سامنے واضح ہو جائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام (ص) نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلہ کرنے سے اجتناب کیا، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی : فاطمہ زہراء (س)، اپنے داماد امام علی (ع)، اپنے نواسوں حسن (ع) اور حسین (ع)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ (ص) کی صداقت کا یقین ہوا، اور یوں رسول اللہ (ص) اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔

نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے [ یعنی دعوت اسلام ] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سن 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اہل بیت (علیہم السلام) کی زبانی واقعہ مباہلہ کی یاد دہانی:

اہل بیت (ع) نے مختلف مقامات پر واقعہ مباہلہ پر استناد کی ہے، جیسے حضرت امیر المؤمنین (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، امام جعفر صادق (ع)، امام موسی کاظم (ع)، امام علی ابن موسی الرضا (ع)۔ اختصار کے پیش نظر ہر امام کے واقعہ کو بیان نہیں کیا، صرف حضرت امام رضا (ع) کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ:

مامون نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کے جد (علی ابن ابی طالب) کی خلافت پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت امام علی رضا (ع) نے فرمایا: انفسنا،

موسوعة الامام على ‏بن ابى‏ طالب، محمدی رى شهرى ج 8 ص 10 بنقل از طرائف المقال۔

پس قرآنی نقطہ نگاہ سے مباہلہ اور آیات برائت کا مشرکین کو ابلاغ کرنے کے واقعات میں اور اہل بیت (ع) کے بیانات اور اہلسنت علماء نے جو رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں اور نیز خود بھی اقرار کیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) نفس رسول ہیں یعنی امام المتقین مقام، فضائل اور کمالات کے لحاظ سے سوائے مقام نبوت کے سید المرسلین کے برابر ہیں، تو جب امیر المؤمنین (ع) کے علاوہ کوئی نبی اکرم (ص) کے برابر نہیں ہے، تو بلا فصل آپ کے بعد آنحضرت کے علاوہ کوئی مسند خلافت پر بیٹھنے کا حقدار نہیں ہے۔

عید مباہلہ:

فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجران کے نصارا کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصارا نجران نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مدینہ روانہ ہو۔

نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلام (ص) کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔

کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔ پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کی نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوئی ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لیے بھی ناگوار گزرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی (ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عام لباس میں آنحضرت (ص)  کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہو گا۔

اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔ میر کارواں ابو حارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ سے گفتگو کریں۔

جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کر چکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کر کے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔

اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔

اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور خنزیر کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔

اس بارے میں ہمارے پاس بہت سے دلائل ہیں، عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسی و جذام سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

سورہ آل عمران آیت 59

آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو شمار کیا، وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدائے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا، اس لیے عیسی کی عبادت کرنے کی بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔

پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑا اور کہا:

عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کیے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔

اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے، کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر) خاک سے پیدا کیا گیا۔

تاریخ اسلام گروہ گروہ مصنفین ج 2 ص 67

اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سر جھکائے بیٹھا ہے۔

آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کیا جائے۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔

ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام (ص) اتفاق نہیں کریں گے ، لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سنا:

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ،

اے عیسائیو ! اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کر آئیں، اسکے بعد مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے۔

سورہ آل عمران آیت 61

اس پر طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں ملتے ہیں۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ :

اگر آج محمد (ص) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہو گا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔

سب کی نظریں شہر کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں، دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر خدا (ص) ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لیے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے حسن علیہ السلام کو پکڑ کر بڑھ رہے ہیں۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا چچا زاد بھائی ، حسنین کا بابا اور فاطمہ کا شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

صحرا میں عجیب عجیب صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لے آیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے۔ اس وقت بڑے پادری نے کہا :

میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا۔ اگر انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ دوسرے نے کہا تو پھر اس کا سد باب کیا ہے ؟

جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تا کہ آپ ہم سے راضی رہیں اور ایسا ہی کیا گیا۔

سیرہ پیشوایان ، مھدی پیشوائی ص 166

اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی۔ مباہلہ پیغمبر (ص) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے۔ مباہلہ پیغمبر کے اہل بیت کا اسلام پر آنے والی ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے۔ تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی کی شہادت ، کبھی امام حسن علی شہادت، کبھی امام حسین کی شہادت، کبھی امام علی زین العابدین کی شہادت ، کبھی امام محمد باقر کی شہادت ، کبھی امام جعفر صادق کی شہادت ، کبھی امام موسی کاظم کی شہادت ، کبھی امام علی رضا کی شہادت ، کبھی امام محمد تقی کی شہادت ، کبھی امام علی النقی کی شہادت ، کبھی امام حسن عسکری کی شہادت اور کبھی امام مہدی (علیہم السلام) کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس دن سے لے کر اسلام کی بقاء کیلئے یہی مباہلہ کے لوگ ، اسلام کی بقاء کیلئے قربان ہونے کیلئے سامنے آتے نظر آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی ہر سازش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔

اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر کی تعلیمات کو عام کرنے والے آئمہ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

التماس دعا۔۔۔۔۔