دین پر اعتقاد یا دین کا رکھنا کیوں ضروری ہے؟

 

 

  • زمرہ جات:          موحدین کے مابین اتحاد

 

سوال: دین پر اعتقاد یا دین کا رکھنا کیوں ضروری ہے؟

جواب: ہم سب سے پہلے دین کی تعریف کریں گے پھر اس اشکال کا جواب دیں گے۔

دین مجموعہ ہے اعتقادات (اصول دین) احکام چاہے وہ عبادت سے متعلق ہوں یا روزمرہ معاملات، اور اخلاق اجتماعی، یہ وحی الٰہی کی صورت میں لوگوں تک پہنچے ہیں اور آسمانی کتابوںٰ میں انکی وضاحت ہوئی ہے اس بنا پر دین اور مذہب میں عہدہ سنت اور مراسم ہیں۔ جن پر عمل کرنا تمام دین داروں کے لئے لازمی ہے، جہاں پر بات دین کی ضرورت کی ہے۔ اس پر بہت زیادہ دلائل موجود ہیں۔ ہم یہاں پر چند دلائل پر اکتفاء کریں گے۔

  • دلیل ۱:

انسان، بشر نے اپنی فطرت کے حکم سے اور اپنی عقل کے استدلال سے خدا کو پہچانا ہے اور اس کی عبادت کے درپے ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے اور اس کے سامنے گریہ و زاری اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تاکہ وہ ہر طرح سے آرام کی زندگی بسر کرے۔ اگر گذشتہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کوئی امت قوم اور قبلہ بغیر مذہب اور دینی عقائد کے بغیر نہ تھے۔

اگرچہ وہ خرافات اور ایسے کاموں کو دین کا حصہ یا دین سمجھ بیٹھے تھے جن کی عقل نفی کرتی ہے۔ بتوں کی پوجا کرنا مختلف مذاہب کی پیروی کرنا اور لوگوں کا مختلف مذاہب کی پیروی کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لئے دین ہونا ضروری ہے۔

آثار قدیمہ کے ماہر افراد نے دنیامیں ہزاروں مقامات سے بت دریافت کئے۔ جن کی لوگ پوجا کیا کرتے تھے۔ جوں جوں لوگوں میں علم کا رجحان زیادہ ہوا بتوں کی پرستش کم ہوتی گئی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بت پرستی اور  کم ہوگئی اور انسانوں کا خدائے متعال پر اعتقاد اور یقین زیادہ ہوگیا۔

اس لئے کہ علم کی پیشرفت کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان موت کے منھ میں چلے گئے۔ انسان سمجھ گیا کہ علم موت سے نہیں بچا سکتا اور نہ ہی خداوند کریم کی جگہ لے سکتا ہے ۔

بناوٹی اور وقتی خدا کا وجود اس بات پر دلیل ہے  کہ کوئی ذات ہے جو حقیقت میں مالک اور خالق ہے۔

پس خلقت آدم سے لیکر آج تک کوئی بھی انسان بغیر دین کے نہیں رہا اور یہ اس بات کی محکم دلیل ہے کہ دین واقعی وجود رکھتا ہے۔

  • دلیل ۲:

حضرت آدم سے لیکر حضرت خاتم الانبیاء تک بالاتفاق جو انبیاء لوگوں کو خدا کی پہچان  اور شناخت اور دین کی طرف دعوت کرتے تھے اور ان کی پیروکاروں میں جیسے بوعلی سینا، آئن سٹائن ، کارل مارکس اور بہت بڑے مجتہد فلسفی تھے اور دین کو قبول کیا۔

اور یہ بات قابل امکان نہیں کہ ان تمام پیامبران نے جو مختلف ادوار اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں سب نے ملکر جھوٹ پر اتفاق کیا ہو۔

پس اس بنا پر ایک عقل مند انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس بات کو یقین سے کہتا ہے کہ یہ رسول انبیاء سب حق پر تھے اور مرنے کے بعد جنت اور جہنم ہے۔ پس اسی بنا پر عقل اور منطق اس بات کا حکم دیتی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے ابن العوجاء اور اُس کے پیروکاروں سے کہا کہ اگر ہماری بات صحیح ہو کہ ہم قائل ہیں کہ قیامت اور حساب کتاب ہے تو ہم کامیاب ہیں چونکہ ہم نے سیدھے راستے پر گامزن ہیں اور نماز ، روزہ اور حج ادا کرتے ہیں اور اگر بالفرض جھوٹ بھی ہو تو ہم نے نقصان نہیں اٹھایا لیکن اگر بہشت اور جہنم کا وجود ہو تو تم لوگوں اور بے دینوں کے لئے بہت بڑا خطرہ اور نقصان ہے کہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جلنا ہے پس ہم نے دین و مذہب پر اعتقاد کے ساتھ خود کو بڑے خطرے سے محفوظ کرلیا ہے اور عظیم سرمائے کو حاصل کرلیا ہے۔

  • دلیل ۳:

دنیا میں بہت سے انقلابات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے قوموں کی رسومات اور سنتوں کو بدل دیا ہے اور اب ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ آج تاریخ میں فقط قانون حمورابی ہے جو بچا ہے اور قوموں کے درمیان بہت سے قوانین اور رسومات تھیں جو ختم ہوچکی ہیں لیکن تمام اجتماعی اور سیاسی انقلابات اور تبدیلیوں کے مقابلے میں تنہا دین اور مذہب ہے جو ابھی تک مستحکم اور باقی ہے۔

حتی رسانس کاسائنسی انقلاب جو مسیحیت اور کلیسا کے مقابلے میں آیا تھا اُس نے کچھ عرصے تک دین کو کم رنگ کیا  لیکن درحقیقت مسیحیت نے دوبارہ جان پکڑلی اور آج عید کرسمس (حضرت عیسیٰ کی ولادت) کے دن  تمام دنیا میں چراغاں ہوتا ہے پس اصل دین ختم ہونے والا نہیں۔