٣ جمادی الثاني، یوم شہادت حضرت فاطمة الزهراء (س) کے موقع پر آپ کے فرزند گرامی حضرت امام زمانہ (عج) اور تمام دوستداران اہل بیت (ع) کی خدمت میں تعزیت عرض کرتے ہیں

 

حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے چالیس گوہربار نورانی کلام

۱- قالَتْ فاطِمَةُ الزَّهْراء سلام اللّه علیها: نَحْنُ وَسیلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَیْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ انْبیائِهِ.

(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج. ۱۶، ص. ۲۱۱)

ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت ہیں، جو پروردگار اور مخلوق کے درمیان رابطے کے ذریعے ہیں۔

ہم اللہ کے پاک و مقدّس، خالص اور مقدس چنے ہوئے ہستیاں ہیں، ہم  ہی حجت الہی اور رہنما ہوں گے۔ اور ہم ہی پروردگار عالم کے نبیوں کے وارث ہیں۔

 

۲-قالَتْ علیها السلام: وَ هُوَ الامامُ الرَبّانى، وَ الْهَیْکَلُ النُّورانى، قُطْبُ الاقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْیابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الامامَةِ.

(ریاحین الشّریعة: ج. ۱، ص. ۹۳.)

آپ (علیہا السلام)،امام علی (علیہ السلام) کی تعریف میں فرماتی ہے:

وہ الہی رہنما اور ربّانى رہبر ہے، اور یہ روشنی اور نور کا مجسمہ ہے۔، تمام مخلوقات عالم (قطب عالم) کی توجہ کا مرکز اور نسب نیک، حق گو وسچ بولنے والا، کلام کرنے میں حکیم  اور ہادی ہیں، جس کا تعلق پاکیزہ و پاکیزہ خاندان سے ہے۔ وہ حلقہ امامت کا نقطہ و مرکز اور رهبریّت و قیادت کا محور ہے۔

 

۳- قالَتْ علیها السلام: ابَوا هِذِهِ الاْ مَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىُّ، یُقْیمانِ اءَودَّهُمْ، وَ یُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ اطاعُوهُما، وَ یُبیحانِهِمُ النَّعیمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما.

(بحارالا نوار: ج. ۲۳، ص. ۲۵۹، ح. ۸)

اس قوم کے ماں باپ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور علىّ (علیه السلام) ہیں۔اگر لوگ ان دونوں کی اطاعت و پیروی کریں گے تو وہ دنیا کے انحرافات اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے۔

اور وہ بہشت کی انواع و اقسام، متنوع اور فراوان نعمتوں سے مستفید ہونگے۔

 

۴- قالَتْ علیها السلام: مَنْ اصْعَدَ إ لىَ اللّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ، اهْبَطَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ افْضَلَ مَصْلَحَتِهِ.

(بحار: ج. ۶۷، ص. ۲۴۹، ح. ۲۵)

جو بھی اپنی عبادت کو خدا کےلئے خلوص نیت کے ساتھ انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مصلحتوں، فوائد اور برکتوں سے نوازے گا

 

۵-قالَتْ علیها السلام: إنَّ السَّعیدَ کُلَّ السَّعیدِ، حَقَّ السَّعیدِ مَنْ احَبَّ عَلیّا فى حَیاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ.

(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج. ۲، ص. ۴۴۹)

بے شک تمام سعادت اور نجات کی حقیقت اور واقعیّت اور حق سعادت،وہ ہے جو حقیقت میں  علىّ (علیه السلام) سے محبت اور دوستی رکھیں، آپ (ع) کی زندگی میں اور آپ (ع) کی شہادت کے بعد۔

 

۶- قالَتْ علیها السلام: إلهى وَ سَیِّدى، اءسْئَلُکَ بِالَّذینَ اصْطَفَیْتَهُمْ، وَ بِبُکاءِ وَلَدَیَّ فى مُفارِقَتى اَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شیعَتى، وَشیعَةِ ذُرّیتَى.

(کوکب الدّرىّ: ج. ۱، ص. ۲۵۴.)

خداوندا!

بحقّ اولیاء، مقرّب بندگان الہی اور اپنے منتخب بندوں کا واسطہ اور میری موت کےبعد میرے بچوں کے رونے کا واسطہ، ہمارے چاہنے والوں،  ہمارے پیروکاروں اور ہمارےشیعوں کے گناہوں کو معاف فرما

 

۷-قالَتْ علیها السلام: شیعَتُنا مِنْ خِیارِ اءهْلِ الْجَنَّةِ وَکُلُّ مُحِبّینا وَ مَوالى اَوْلیائِنا وَ مُعادى اعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا.

(بحارالا نوار: ج. ۶۸، ص. ۱۵۵، س. ۲۰، ضمن ح. ۱۱)

ہمارے شیعہ اور پیروکار نیز ہمارے اولیاء سے دوستی ومحبت کرنے والے اور وہ لوگ جو ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔

نیز وہ لوگ جو اپنے دل اور زبان سے تسلیم اورہماری اطاعت کرتے ہیں  وہ جنت وبہشت میں بہترین لوگوں میں سے ہوں گے۔

 

۸- قالَتْ علیها السلام: وَاللّهِ یَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا إنّى اکْرَهُ انْ یُصیبَ الْبَلاءُ مَنْ لاذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ انّى سَاءُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ اجِدُهُ سَریعَ الاْجابَةِ.

(اصول کافى: ج. ۱، ص. ۴۶۰، بیت الا حزان: ص. ۱۰۴، بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۲۵۰، ح. ۳۰)

جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے عمر بن خطاب سے فرمایا:

اے خطاب کے بیٹے!

خدا کی قسم!

اگر مجھے یہ پسند نہ ہوتا کہ بے گناہوں پر خدا کا عذاب نازل ہو، تو تم جانتا اور دیکھتا کہ میں خدا کی قسم کھا کر رہی ہوں اور نفرین و لعنت بھیجتی اور تم دیکھتے کہ میری دعاء کس طرح جلد قبول اور مستجاب ہوتی ہے۔

 

۹-قالَتْ علیها السلام: وَاللّهِ، لاکَلَّمْتُکَ ابَدا، وَاللّهِ لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَیْکَ فى کُلِّ صَلوةٍ.

(صحیح مسلم: ج. ۲، ص. ۷۲، صحیح بخارى: ج. ۶، ص. ۱۷۶)

آپ (علیہا السلام) نے اپنے بیت الشرف پر ہجوم اور حملے کے بعد آپ (علیہا السلام) نے ابوبکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

میں خدا کی قسم کھاتی ہوں، میں تم سے دوبارہ ہرگزبات نہیں کروں گی اور خدا کی قسم، میں ہر نماز میں تم پر لعنت بھیجوں گی۔

 

۱۰- قالَتْ علیها السلام: إنّى اُشْهِدُاللّهَ وَ مَلائِکَتَهُ، انَّکُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضیتُمانى، وَ لَئِنْ لَقیتُ النَبِیَّ لا شْکُوَنَّکُما إلَیْهِ.

(بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۳۰۳، صحیح مسلم: ج. ۲، ص. ۷۲، بخارى: ج. ۵، ص. ۵)

جب ابوبکر اور عمر، آپ (علیہا السلام) سے ملنے آئے

تو آپ (علیہا السلام) نے فرمایا:

میں خدا اور فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا۔ اور تم نے مجھے راضی اور مطمئن نہیں کیا اور اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے ملوں تو تم دونوں کی شکایت کروں گی۔

 

11- قالَتْ علیها السلام: لاتُصَلّى عَلَیَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَاللّهِ وَ عَهْدَ ابى رَسُولِ اللّهِ فى امیرالْمُؤ منینَ عَلیّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَاءخَذُوا إرْثى، وَخَرقُوا صَحیفَتى اللّتى کَتَبها لى ابى بِمُلْکِ فَدَک.

(بیت الا حزان: ص. ۱۱۳، کشف الغمّة: ج. ۲، ص. ۴۹۴)

وہ لوگ میری لاش پر نماز نہ پڑھیں جنہوں نےعہد ِپروردگار عالم اور میرے والد محترم  پیغمبر خدا( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد کوتوڑا ہے جو  امیرالمؤمنین علىّ (علیه السلام) کے بارے میں لیا تھا انہوں نے(بیعت شکنی کی) عہد وپیمان کو توڑا۔ اور انہوں نے مجھ پر ظلم کیا، اور میرےحق وراثت  کوچھین لیا اور فدک کے ملکیت کے متعلق میرے والد کا خط پھاڑ دیا۔

 

۱۲ . قالَتْ علیها السلام: إلَیْکُمْ عَنّى، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَدیرِکُمْ، وَالاْمْرُ بعد تقْصیرکُمْ، هَلْ تَرَکَ ابى یَوْمَ غَدیرِ خُمّ لاِحَدٍ عُذْوٌ.

(خصال: ج. ۱، ص. ۱۷۳، احتجاج: ج. ۱، ص. ۱۴۶)

آپ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کر کے فرمایا:

مجھ سے دور ہو جاؤ! اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ کیا تم لوگوں کے لئے غدیرخم کے اعلان کے بعد بھی کوئی عذر باقی رہتا ہے؟!

کہ تم لوگ لاتعلقی اور غفلت کےشکار ہو یاد رکھنا تم مقصر ہو۔ کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی عذر باقی چھوڑا تھا؟

 

۱۳ . قالَتْ علیها السلام: جَعَلَ اللّهُ الاْیمانَ تَطْهیرا لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزی‌ها لَکُمْ مِنَ الْکِبْرِ، وَالزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ، وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَالصِّیامَ تَثْبیتا لِلاْخْلاصِ، وَالْحَّجَ تَشْییدا لِلدّینِ

(ریاحین الشّریعة: ج. ۱، ص. ۳۱۲، فاطمة الزّهراء علی‌ها السلام: ص. ۳۶۰، مهاجرین و انصار کے درمیان دی ہوئی طولانی خطبے سے اقتباس)

خداوند سبحان، نے ایمان و اعتقادِ یقین کو شرک سے طہارت وپاکیزگی اور گمراہی، شقاوت اور فتنہ سے نجات کا ذریعہ بنایا۔ اورہر قسم کے تکّبر،کےلئے، تواضع و خضوع ، فروتنى وعاجزی، اور پاکیزگی کے ساتھ اداء کی ہوئی نماز کو قرار دی ہے۔اور زکوٰۃ (اور خمس) کو تزکیه نفس کا وسیلہ  اور رزق و روزی میں برکت کا باعث بنایا ہے۔ اور روزے کو استقامت، ارادے میں اخلاص کا ذریعہ بنایا۔ اور حج کو اس لئے فرض کیا تاکہ شریعت کی اساس و بنیاد مستحکم اور دین اسلام کی مضبوط کا باعث بنے ۔

 

۱۴ . قالَتْ علیها السلام: یا ابَاالْحَسَنِ، إنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ اهْلِهِ لُحُوقا بِهِ وَلابُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِ مْرِاللّهِ تَعالى وَارْضَ بِقَض ائِهِ.

(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۲۰۰، ح. ۳۰)

اے ابا الحسن!

رسول اللہ (صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وسلم) نے مجھ سے وعدہ و عہد کیا ہے اور مجھ سےفرمایا:

اہل بیت(ع) میں سے میں پہلا شخص ہوں جو آپ (رسول اللہ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وسلم) سے ملحق و ملاقات کرےگی ، اور اسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، پس آپ خدا کی تقدیر، قضا اور مقدّرات الهى پر صبر کرو اور تقدیرالہی کو خوشنودی کے ساتھ قبول کیجئے۔

 

۱۵ .قالَتْ علیها السلام: مَنْ سَلَّمَ عَلَیْهِ اَوْ عَلَیَّ ثَلاثَةَ ایّامٍ، اوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَیاتِهِ وَ حَیاتِکِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا.

(الا مامة والسّیاسة: ص. ۳۰، بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۳۵۵، ح. ۶۹)

جو بھی تین دن تک میرے باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر یا مجھ (زہراء) پر درود وسلام بھیجے، پروردگار اس کے لیے جنت کو واجب کرتا ہے،

روای کہتا ہے کہ میں نے کہا:

چاہے وہ ان کی زندگی کے دوران ہو یا موت کے بعدبھی ؟

تو آپ علیہاالسلام نے فرما یا: جی موت کے بعدبھی

 

۱۶ . قالَتْ علیها السلام: ما صَنَعَ ابُوالْحَسَنِ إلاّ ما کانَ یَنْبَغى لَهُ، وَلَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسیبُهُمْ وَ طالِبُهُمْ.

(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۱۸۵، ح. ۱۷)

لوگوں نے ابوالحسن (امام علی علیہ السلام) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین اور بیعت خلافت کے بارے میں  جو کچھ انجام دیا وہ سب ان کا فریضہ الہی تھا لیکن جو کچھ دوسروں نے انجام دیا پروردگار عالم ان کا حساب وکتاب اور مجازات اور سزا ضرور دے گا۔

 

۱۷ . قالَتْ علیها السلام: خَیْرٌ لِلِنّساءِ انْ لایَرَیْنَ الرِّجالَ وَلایَراهُنَّ الرِّجالُ.

(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۵۴، ح. ۴۸)

عورت کے حفظ شخصیت اور کردار کو محفوظ رکھنےکےلئے بہترین چیز یہ ہے۔کہ کوئی مرد  اس کو نہ دیکھے اور وہ عورت  مردوں کا مشاہدہ نہ کرنا یعنی اپنی نگاہ کو نامردوں سے بچائیں اور نامحرموں کی نگاہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔

 

۱۸ . قالَتْ علیها السلام: اوُصیکَ یا ابَاالْحَسنِ انْ لاتَنْسانى، وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى.

(زهرة الرّیاض کوکب الدّرى: ج. ۱، ص. ۲۵۳)

اے ابالحسن!میری وصیت ہے کہ مجھے:

مرنے کے بعد مت بھولنا۔ اور میری قبر پر میری زیارت کےلئے آتے رہنا

 

۱۹ .قالَتْ علیها السلام: إنّى قَدِ اسْتَقْبَحْتُ ما یُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ یُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَیَصِفُها لِمَنْ رَاءى، فَلا تَحْمِلینى عَلى سَریرٍ ظاهِرٍ، اُسْتُرینى، سَتَرَکِ اللّهُ مِنَ النّارِ.

(تهذیب الا حکام: ج. ۱، ص. ۴۲۹، کشف الغمّه: ج. ۲، ص. ۶۷، بحار:ج ۴۳، ص. ۱۸۹، ح. ۱۹)

اپنی زندگی کے آخری بابرکت ایام میں جناب اسماء کو وصیت کرتی ہوئی فرماتی ہے: مجھے یہ پسند نہیں اور ناگوار لگتی ہے کہ عورتوں کی لاشوں کو موت کے بعد جسموں پر کپڑے ڈال کر تشییع کی جاتی ہے۔اور لوگ اس میت(عورت) کے جسم وجسامت کا مشاہدہ کرے اس کے بعد دوسروں کے سامنےاس کی تعریف و توصیف بیان کرے۔ (میری وصیت ہے کہ)میرے جسم کو اس طرح ڈھامپے کہ دیکھنےاور دوسروں کی نگاہ میں رکاوٹ بنے بلکہ میرے جسم کو پوری طرح ڈھانپ کر( کامل پوشش کےساتھ) دفن کرنا۔پروردگار آپ کو آتش جهنّم کی آگ سے بچائے اورمحفوظ قرار دیں

 

۲۰ . قالَتْ علیها السلام:. إنْ لَمْ یَکُنْ یَرانى فَإنّى اراهُ، وَ هُوَ یَشُمُّ الریح.

(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۹۱، ح. ۱۶، إ. حقاق الحقّ: ج. ۱۰، ص. ۲۵۸)

ایک مرتبہ کوئی نابینا  شخص حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےبیت الشرف میں داخل ہواتو آپ علیہا السلام چادر کے پیچھے چھپ گئیں۔

جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کی علت اور وجہ معلوم کیا؟

تو آپ علیہاالسلام نےجواب میں فرمایا:

اگرچہ مجھے وہ اندھا  نہیں دیکھتے لیکن میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں، اس کے علاوہ چونکہ مرد حسّاس ہوتا ہے اور عورت کی خوشبو سونگھتا اوراستشمام کرتاہے۔

 

۲۱ . قالَتْ علیها السلام: أصْبَحْتُ وَ اللّهِ! عاتِقَةً لِدُنْیاکُمْ، قالِیَةً لِرِجالِکُمْ.

(دلائل الا مامة: ص. ۱۲۸، ح. ۳۸، معانى الا خبار: ص. ۳۵۵، ح. ۲)

باغ ِفدک پر قبضےکےبعد مہاجرین اور انصار کے کچھ عورتیں حضرت کے گھر آئیں اور ان کی خیرت اور احوال دریافت کیں۔تو آپ علیہا السلام نے غصب فدک  پراحتجاج وغیرہ کے بعد جواب میں فرمایا:

خدا کی قسم!

میں نے دنیا کو آزاد کیا اور مجھے اس ظاہری دنیا کی زرق و برق سے کوئی علاقہ، سروکار اورغرض نہیں، نیزمیں تمہارے مردوں کےمخالفت کروں گی اور دشمنی بھی رکھوں گی

 

۲۲ . قالَتْ علیها السلام: إنْ کُنْتَ تَعْمَلُ بِما اءمَرْناکَ وَتَنْتَهى عَمّا زَجَرْناکَ عَنْهُ، فَانْتَ مِنْ شیعَتِنا، وَ إلاّ فَلا.

(تفسیر الا مام العسکرى علیه السلام: ص. ۳۲۰، ح. ۱۹۱)

اگر تم (ہم اہل بیت علیہم السلام ) جن چیزوں  کا ہم حکم کرے اس پر عمل پیرا ہو ۔اورجن  چیزوں سے ہم  منع کرے تو اس سے پرہیز کریں تو یقینا تم  ہمارے شیعوں میں سے ہیں ورنہ ہمارا شیعہ نہیں ہوسکتا۔

 

۲۳ . قالَتْ علیها السلام: حُبِّبَ إلَیَّ مِنْ دُنْیاکُمْ ثَلاثٌ: تِلاوَةُ کِتابِ اللّهِ، وَالنَّظَرُ فى وَجْهِ رَسُولِ اللّهِ، وَالاْنْفاقُ فى سَبیلِ اللّهِ.

مجھے تمہاری اس دنیا سے تین چیزیں پسند ہیں:

قرآن کی تلاوت ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےنورانی چہرہ اقدس کی طرف نگاہ کرنا اورراہ خدا میں ضروتمندوں اور نیازمندوں کی مدد اوران پر انفاق کرنا ۔

 

۲۴ . قالَتْ علیها السلام: اُوصیکَ اَوّلاً انْ تَتَزَوَّجَ بَعْدى بِإبْنَةِ اُخْتى امامَةَ، فَإ نَّها تَکُونُ لِوُلْدى مِثْلى، فَإنَّ الرِّجالَ لابُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّساءِ.

(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۱۹۲، ح. ۲۰، اءعیان الشّیعة: ج. ۱، ص. ۳۲۱)

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نےاپنی عمر کے آخری  لمحات میں اپنے همسر نامدار امام علی علیہ السلام کو سفارش اور وصیت کتی ہوئی فرماتی ہے:اے اباالحسن میرے بعد امامہ سے ازدواج کرنا،چونک وہ میری اولاد کے نسبت میری مانند دلسوز اور متدیّن ہے، اور مرد حضرات کے لئے عورت کی ضرورت ہوتی ہے

 

۲۵ .قالَتْ علیها السلام: الْزَمْ رِجْلَها، فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ اقْدامِها، و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ.

(کنزل العمّال: ج. ۱۶، ص. ۴۶۲، ح. ۴۵۴۴۳)

همیشه اپنے ماں کی قدموں پر ان کی خدمت کرنا، چونکہ بهشت اور جنت ماؤں کے پیروں کے نیچے ہوتی ہے؛ اور اس عمل خیر کے نتیجے میں جنت کی تمام نعمتیں حاصل ہوں گی

 

۲۶ . قالَتْ علیها السلام: ما یَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِیامِهِ إذا لَمْ یَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ.

(مستدرک الوسائل: ج. ۷، ص. ۳۳۶، ح. ۲، بحارالا نوار: ج. ۹۳، ص. ۲۹۴، ح. ۲۵)

روزہ دار اپنی زبان، کان اور آنکھ اوردیگر اپنے اعضاءو جوارح  پر کنٹرول نہ کرسکیں، تو اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

۲۷ .قالَتْ علیها السلام: اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ یُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ، وَ بُشْرى فى وَجْهِ الْمُعانِدِ یَقى صاحِبَهُ عَذابَ النّارِ.

(تفسیر الا مام العسکرى علیه السلام: ص. ۳۵۴، ح. ۲۴۳، مستدرک الوسائل: ج. ۱۲، ص. ۲۶۲، بحارالا نوار: ج. ۷۲، ص. ۴۰۱، ح. ۴۳)

مؤ من کے سامنے تبسّم  و مسکرانا اور خوشی کا اظہارکرنا جنت میں داخل ہونے کا سبب اورباعث بنتا ہے۔اور دشمنوں اور مخالفین کے سامنے تبسّم  و مسکرانا اور خوشی کا اظہارکرنا  عذاب  الہی سے بچانے اورحفاظت کا سبب بنے گا

 

۲۸ . قالَتْ علیها السلام: لایَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، یَبیتُ وَ فى یَدِهِ ریحُ غَمَرٍ.

(کنزل العمّال: ج. ۱۵، ص. ۲۴۲، ح. ۴۰۷۵۹)

ایسا شخص رات سونے کے بعد اپنے ہاتھوں مت دھو، جبکہ  اس کے ہاتھوں میں بد بوسے آلودہ ہو۔

اگر وہ اپنے اس فعل سے ناراض ہوجائے تو اسے اپنے سوا کسی کوسرزنش نہیں کرنی چاہیے۔

 

۲۹ .قالَتْ علیها السلام: اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإ نْ رَأیْتَ نِصْفَ عَیْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأ عْلِمْنى حَتّى أدْعُو.

(دلائل الا مامة: ص. ۷۱، س. ۱۶، معانى الا خبار: ص. ۳۹۹، ضمن ح. ۹)

جمعه کے روز غروب آفتاب کے نزدیک اپنے غلام سے فرمایا: چھت پر جاؤ، جب بھی آدھی خورشید غروب کرے تو مجھے خبر دینا تاکہ میں اپنے اور دوسروں کے لئے دعاء کرسکوں ۔

 

۳۰ .قالَتْ علیها السلام: إنَّ اللّهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعا وَلایُبالى.

(تفسیر التّبیان: ج. ۹، ص. ۳۷، س. ۱۶)

خداوند متعال اپنے بندوں کے تمام گناهوں کو بخش دےگا اور اسے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

 

۳۱ .قالَتْ علیها السلام: الْجارُ ثُمَّ الدّارُ.

(علل الشّرایع: ج. ۱، ص. ۱۸۳، بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۸۲، ح. ۴)

پہلے اپنے همسایه، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی پریشانیوں  ومشکلات اور آسایش و آرام کے بارے میں سوچیں، پھر اپنے بارے میں سوچیں۔

 

۳۲ .قالَتْ علیها السلام: الرَّجُلُ اُحَقُّ بِصَدْرِ دابَّتِهِ، وَ صَدْرِ فِراشِهِ، وَالصَّلاةِ فى مَنْزِلِهِ إلا الاْمامَ یَجْتَمِعُ النّاسُ عَلَیْهِ.

(مجمع الزّوائد: ج. ۸، ص. ۱۰۸، مسند فاطمه: ص. ۳۳ و ۵۲)

ہر شخص اپنے مرکب و سواری کے مقابلے میں دسروں سے مقدم ہے، اور اپنے گھر کے فرش اور قالین وغیرہ بچھانے اور اس  مکان میں نماز کی ادائیگی میں دوسروں سے ترجیح اورحقِ اولویّت رکھتا ہے۔

البتہ اگر وہاں لوگ جماعت کے لئے جمع ہو تو جماعت مقدم ہوگی، ورنہ ایسا نہیں ہوگا۔

 

۳۳ .قالَتْ علیها السلام: یا ابَة، ذَکَرْتُ الْمَحْشَرَ وَ وُقُوفَ النّاسِ عُراةً یَوْمَ الْقیامَةِ، واسَوْاء تاهُ یَوْمَئِذٍ مِنَ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ.

(کشف الغمّة: ج. ۲، ص. ۵۷، بحار الا نوار: ج. ۸، ص. ۵۳، ح. ۶۲)

اے میرے والد گرامی!

مجھے یاد آیاکہ قیامت اور محشر کے دن لوگوں کو  پیش گاه ِخداوند کیسے ننگے سر کھڑے کرینگے۔ اور  فریاد رسى نہیں ہوگی، سوائے ان کے اپنے اعمال کے اور خاندان اهل بیت علیهم السلام کے ساتھ محبت کے،

 

۳۴ .قالَتْ علیها السلام: إذا حُشِرْتُ یَوْمَ الْقِیامَةِ، اشْفَعُ عُصاةَ اءُمَّةِ النَّبىَّ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ.

(إ حقاق الحقّ: ج. ۱۹، ص. ۱۲۹)

جب لوگ قیامت کے دن محشور کیا جائے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت کے خطا کاروں کی شفاعت کروں گی۔

 

۳۵ .قالَتْ علیها السلام: فَاکْثِرْ مِنْ تِلاوَةِ الْقُرآنِ، وَالدُّعاءِ، فَإنَّها ساعَةٌ یَحْتاجُ الْمَیِّتُ فیها إلى اُنْسِ الاْحْیاءِ۔

(بحارالا نوار: ج. ۷۹، ص. ۲۷، ضمن ح. ۱۳)

حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے امام علی (علیہ السلام) کو وصیّت میں فرمایا:

مجھے دفنانے کے بعد میرے قبر پر کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا،

اور میرے لئے دعاء کرنا۔

کیونکہ اس وقت میّت کو زندوں سے ہر چیز کی اشد ضرورت ہوتی ہے

 

۳۶ .قالَتْ علیها السلام: یا ابَا الحَسَن، إنّى لاسْتَحى مِنْ إلهى انْ اکَلِّفَ نَفْسَکَ مالاتَقْدِرُ عَلَیْهِ.

(امالى شیخ طوسى: ج. ۲، ص. ۲۲۸)

حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) نے امیرالمؤ منین علىّ (علیه السلام) کو خطاب کے فرمایا:

میں اپنے پروردگار سے شرمندہ ہوں کہ میں آپ سے کچھ مانگوں اور آپ اسے فراہم کرنے پر قادر نہ ہو۔

 

۳۷ .قالَتْ علیها السلام: خابَتْ اُمَّةٌ قَتَلَتْ ابْنَ بِنْتِ نَبِیِّها.

(مدینة المعاجز: ج. ۳، ص. ۴۳۰.)

وہ گروہ جنہوں نے اپنے نبی کے بیٹے کو قتل کیا ہو۔وہ شخص محفوظ اور سعادتمند و خوش نہیں ہوں گے۔

 

۳۸ .قالَتْ علیها السلام: … وَ النَّهْىَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزی‌ها عَنِ الرِّجْسِ، وَاجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجابا عَنِ اللَّعْنَةِ، وَ تَرْکَ السِّرْقَةِ ایجابا لِلْعِّفَةِ.

(ریاحین الشّریعة: ج. ۱، ص. ۳۱۲)

فاطمة الزهراء علیها السلام: ص. ۳۶۰، آپ کے مشہور طولانی خطبے سے اقتباس)

خداوند متعال نے شراب خواری سے نہی اور منع کیاہے تاکہ معاشرہ جنایت اور جرائم سے پاک رہ سکیں۔

اور تهمت‌ و ناروا اور غیر منصفانہ تعلقات سے دوری، غضب و نفرین اور لعنت سے محفوظ رہ سکیں۔ اور چوری چھوڑنا اور ترک کرنا معاشرے کی پاکیزگی اور افراد  کی پاکدامنى کا باعث بن سکیں۔

 

۳۹ .قالَتْ علیها السلام: حرم [الله]الشِّرْکَ إخْلاصا لَهُ بِالرُّبُوبِیَّةِ، فَاتَّقُوا اللّه حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لا تَمُوتُّنَ إلاّ وَ اءنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اءطیعُوا اللّه فیما اءمَرَکُمْ بِهِ، وَ نَهاکُمْ عَنْهُ، فَاِنّهُ، إ نَّما یَخْشَى اللّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءِ.

(ریاحین الشّریعة: ج. ۱، ص. ۳۱۲، فاطمة الزهراء علی‌ها السلام: ص. ۳۶۰، حضرت زہراءسلام اللہ علیھا کے طولانى خطبه(فدکیہ) سے اقتباس)

پروردگار نے شرک  کو اس لئے حرام قرار دیا تاکہ ہر شخص  پاک و صاف رہے اور اپنی ربوبیت کے سامنے سرتسلیم خم کر لے پس تقویِٰ الٰہی حاصل کرنا چاہیے جتنا حق ہے، موت نہیں آئے گی مگر یہ کہ جب تم مسلمان بن جائے

لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پیروی کریں جس کا اس نے آپ کو حکم دیا ہے یا جس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے بندوں میں سے صرف علماء اور (اہل علم) ہی ڈریں گے۔

 

۴۰ .قالَتْ علیها السلام:، امّا وَاللّهِ، لَوْتَرَکُوا الْحَقَّ عَلى اهْلِهِ وَاتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبیّه، لَمّا اخْتَلَفَ فِى اللّهِ اثْنانِ، وَلَوَرِثَها سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ، وَخَلْفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حَتّى یَقُومَ قائِمُنا، التّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ عَلَیْهِالسَّلام.

الا مامة والتبصرة: ص. ۱، بحارالا نوار: ج. ۳۶، ص. ۳۵۲، ح. ۲۲۴.)

میں خدا کی قسم کھاتی ہوں۔

اگر حقّ یعنى خلافت و امامت اسکے اہل کے سپرد کر دیتے۔ اور عترت و اهل بیت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہم اجمعین)  کی پیروی اور متابعت اور اطاعت کرتے۔

اور اگر خدا اور دین خدا کے خاطر ایک دوسرے سے اختلاف نہ کرتے۔

اور خلافت و امامت کے منصب کو یکے بعد دیگرے اہل اور شائستہ ہستیوں کو منتقل کرتے یہاں تک کہ آخری حجت خدا، قائم آل محمّد (عجّل اللّه فرجه الشریف) کے سپرد کردیا ہوتا، اور ان سب پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں،

یہ وہ ہستی ہیں جو نسل اور فرزندان ِحسین (علیه السلام) میں سے نویں خورشید ہونگے۔