آٹسکو ہوشینو ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں حضرت علی و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کا عشق اسلام تک لے آیا اور انہوں نے مذہب حقہ قبول کرکے اپنا نام فاطمہ رکھا
جب میں ایران آئی تو میرے سننے میں آیا کہ بہت سے لوگوں کا مہر زیادہ ہونے کے سبب وہ لوگ جب ادا کرنے پر قادر نہ ہوئے تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا وہ چیز جو(مہر) شادی کے مقدس ہونے کی ضمانت ہو وہ کیسے کسی کے لئے مشکل ساز ہوسکتی ہے اگرچہ مہر لینا عورت کا حق ہے لیکن اس کی ایک حد ہونا چاہیئے اور چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہیں لہذا میں نے شادی سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ میرا مہر بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔
آج ہم آپ کی خدمت میں ایک جاپانی خاتون آٹسکو ہوشینو کے ساتھ ایک انٹریو کو لیکر حاضر ہوئے ہیں یہ ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں حضرت علی و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کا عشق اسلام تک لے آیا اور انہوں نے مذہب حقہ قبول کرکے اپنا نام فاطمہ رکھا۔خود ان کی زبانی ان کے حالات پیس قارئین ہیں:
11 ستمبر 2001 کے بعد جب دنیا کے متعدد ریڈیو اور ٹی وی چینلز نے ورلڈ ٹریٹ سینٹر پر حملہ کے بعد ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشیں تیز کی اسی زمانے میں میرے اندر اسلام کے بارے تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا ہوا کہ آخر دیکھا جائے کہ کیا واقعاً اسلام ایسا مذہب ہے؟ اور مسلمان ایسے ہی جیسا کہ یہ چینلز ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں؟میں اس حادثہ سے پہلے دین اسلام کے بارے میں بلکل نہیں جانتی تھی اور ہمارے ملک میں بھی اگرچہ معدودے کچھ مسلمان آباد تھے لیکن مجھے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔’’ و مکروا مکرالله و الله خیر الماکرین ‘‘ آخر کار دشمنوں کی سازش ہی میرے حق میں اللہ کی تدبیر ثابت ہوئی لہذا میں اپنے شبہات اور ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر کثرت کے ساتھ مطالعہ کرنے لگی اسی درمیان میری بات چیت جناب ابراہیم نژاد سے ہوئی کہ بعد میں انہیں سے میں نے شادی کی۔وہ اس وقت ایک اسلامی سائیٹ پر مسائل دینی اور شبہات کے جواب دیتے تھے میں چیٹ کے ذریعہ ان سے سوال کرتی تھی اور وہ جواب دیتے تھے یہاں تک کہ مجھے ان کے جوابات سے تسلی ہوئی اور یہ چیٹ کا سلسلہ تقریباً 7 برس تک چلتا رہا اور ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ اب ہمیں شادی کرلینا چاہیئے لیکن ان کے گھر والے اس شادی کے لئے راضی نہیں تھے اور اسی طرح میرے والدین بھی مجھے اس شادی سے مسلسل منع کررہے تھے اور مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں شادی سے پہلے ایک بار ایران جاؤں اور نزدیک سے وہاں کے حالات دیکھوں اور سمجھوں کہ کیا میں وہاں زندگی گذار سکوں گی یا نہیں؟
غرض میں ایران آئی اور کچھ دن کے بعد واپس جاپان گئی اور اپنے گھر والوں سے شادی کے لئے درخواست کی خیر انہوں نے قبول کرلیا اور ہم دونوں نے اللہ کے فضل سے مشترکہ زندگی کا آغاز کردیا اور الحمد للہ میں اب بہت خوش ہوں۔
میری زندگی کا آئیڈیل حضرت زھرا(س)
حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ زہرا(س) صاحب کمالات ہیں اور ان حضرات نے ازدواجی زندگی کا ایک کامل نمونہ پیش کیا ہے یعنی کس طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی حمایت کریں۔ ایک دوسرے کے غمگسار ہوں۔ ان ذوات کی زندگی میرے لئے بڑی برکت کا سبب بنی اس طرح کہ میں ایک ایسے ملک میں پلی بڑھی جہاں نہ مسلمان ہیں اور نہ دین اسلام کو زیادہ سمجھنے کے لئے کتابیں میری ساری معلومات اور اسلامی کتب تک رسائی کا واحد ذریعہ انٹرنیٹ تھا۔
قرآن مجید میں بھی مہر کا تذکرہ آیا ہے کہ مرد کو عورت کا مہر دینا چاہیئے اور میں بھی یہ سمجھی کہ مرد کو شادی کے پہلے ہی یہ مہر کی رقم دینا چاہیئے اور پھر اس کے بعد شادی ہو ۔
جب میں ایران آئی تو میرے سننے میں آیا کہ بہت سے لوگوں کا مہر زیادہ ہونے کے سبب وہ لوگ جب ادا کرنے پر قادر نہ ہوئے تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا وہ چیز جو(مہر) شادی کے مقدس ہونے کی ضمانت ہو وہ کیسے کسی کے لئے مشکل ساز ہوسکتی ہے اگرچہ مہر لینا عورت کا حق ہے لیکن اس کی ایک حد ہونا چاہیئے اور چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہیں لہذا میں نے شادی سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ میرا مہر بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔چنانچہ میں نے عقد سے پہلے اپنے شوہر سے تین چیزوں کا مطالبہ کیا:
- عقد کے وقت ہی میرے مہر کو ادا کریں۔
- میرا مہر حضرت زہرا(س) سے زیادہ نہیں ہوگا۔
- میرے مہر میں صرف میرے شوہر کی محنت سے کمایا ہوا مال ہو ان کے گھر والوں کا نہیں۔
چونکہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی شادی سے پہلے اپنی ذرہ کو فروخت کرکے شہزادی کونین(س) کا مہر ادا کیا تھا لہذا میں نے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ مجھے مہر دینے کے لئے آپ اپنے گھر والوں سے ایک پیسہ نہ لیجئے چنانچہ انہوں نے بھی ویسا ہی کیا اور مہر میں مجھے سونے کا ایک (تولہ) سکہ دیا کہ اس وقت اس کی قیمت 3 لاکھ تومان تھی لہذا میں نے بھی وہ سکہ فروخت کر اپنی مشترکہ زندگی کے لئے کچھ ضروری سامان خریدا اور وہ سارا پیسہ خرچ ہوگیا۔یہ حضرت فاطمہ و علی(ع) کی زندگی کا ایک پہلو تھا ۔شادی کوئی اقتصادی معاملہ اور اگریمنٹ نہیں ہے یہ زندگی کا ایک مقدس رشتہ ہے جس میں عورت و مرد کے حدود معین ہیں۔ یہ مہر کی رقم شادی کا ایک بہترین مقدمہ ہے البتہ یہ کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں اور چونکہ ان حضرات کی زندگی بہت سادہ تھی لہذا ہمیں اپنانا چاہیئے۔
جولائی 7 2019
ٹوکیو کی تازہ مسلمان خاتون جس کی زندگی کا آئیڈل حضرت زہرا(س)
آٹسکو ہوشینو ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں حضرت علی و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کا عشق اسلام تک لے آیا اور انہوں نے مذہب حقہ قبول کرکے اپنا نام فاطمہ رکھا
جب میں ایران آئی تو میرے سننے میں آیا کہ بہت سے لوگوں کا مہر زیادہ ہونے کے سبب وہ لوگ جب ادا کرنے پر قادر نہ ہوئے تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا وہ چیز جو(مہر) شادی کے مقدس ہونے کی ضمانت ہو وہ کیسے کسی کے لئے مشکل ساز ہوسکتی ہے اگرچہ مہر لینا عورت کا حق ہے لیکن اس کی ایک حد ہونا چاہیئے اور چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہیں لہذا میں نے شادی سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ میرا مہر بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔
آج ہم آپ کی خدمت میں ایک جاپانی خاتون آٹسکو ہوشینو کے ساتھ ایک انٹریو کو لیکر حاضر ہوئے ہیں یہ ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں حضرت علی و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کا عشق اسلام تک لے آیا اور انہوں نے مذہب حقہ قبول کرکے اپنا نام فاطمہ رکھا۔خود ان کی زبانی ان کے حالات پیس قارئین ہیں:
11 ستمبر 2001 کے بعد جب دنیا کے متعدد ریڈیو اور ٹی وی چینلز نے ورلڈ ٹریٹ سینٹر پر حملہ کے بعد ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازشیں تیز کی اسی زمانے میں میرے اندر اسلام کے بارے تحقیق کرنے کا جذبہ پیدا ہوا کہ آخر دیکھا جائے کہ کیا واقعاً اسلام ایسا مذہب ہے؟ اور مسلمان ایسے ہی جیسا کہ یہ چینلز ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں؟میں اس حادثہ سے پہلے دین اسلام کے بارے میں بلکل نہیں جانتی تھی اور ہمارے ملک میں بھی اگرچہ معدودے کچھ مسلمان آباد تھے لیکن مجھے ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔’’ و مکروا مکرالله و الله خیر الماکرین ‘‘ آخر کار دشمنوں کی سازش ہی میرے حق میں اللہ کی تدبیر ثابت ہوئی لہذا میں اپنے شبہات اور ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر کثرت کے ساتھ مطالعہ کرنے لگی اسی درمیان میری بات چیت جناب ابراہیم نژاد سے ہوئی کہ بعد میں انہیں سے میں نے شادی کی۔وہ اس وقت ایک اسلامی سائیٹ پر مسائل دینی اور شبہات کے جواب دیتے تھے میں چیٹ کے ذریعہ ان سے سوال کرتی تھی اور وہ جواب دیتے تھے یہاں تک کہ مجھے ان کے جوابات سے تسلی ہوئی اور یہ چیٹ کا سلسلہ تقریباً 7 برس تک چلتا رہا اور ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ اب ہمیں شادی کرلینا چاہیئے لیکن ان کے گھر والے اس شادی کے لئے راضی نہیں تھے اور اسی طرح میرے والدین بھی مجھے اس شادی سے مسلسل منع کررہے تھے اور مجھ سے کہہ رہے تھے کہ میں شادی سے پہلے ایک بار ایران جاؤں اور نزدیک سے وہاں کے حالات دیکھوں اور سمجھوں کہ کیا میں وہاں زندگی گذار سکوں گی یا نہیں؟
غرض میں ایران آئی اور کچھ دن کے بعد واپس جاپان گئی اور اپنے گھر والوں سے شادی کے لئے درخواست کی خیر انہوں نے قبول کرلیا اور ہم دونوں نے اللہ کے فضل سے مشترکہ زندگی کا آغاز کردیا اور الحمد للہ میں اب بہت خوش ہوں۔
میری زندگی کا آئیڈیل حضرت زھرا(س)
حضرت علی(ع) اور حضرت فاطمہ زہرا(س) صاحب کمالات ہیں اور ان حضرات نے ازدواجی زندگی کا ایک کامل نمونہ پیش کیا ہے یعنی کس طرح شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی حمایت کریں۔ ایک دوسرے کے غمگسار ہوں۔ ان ذوات کی زندگی میرے لئے بڑی برکت کا سبب بنی اس طرح کہ میں ایک ایسے ملک میں پلی بڑھی جہاں نہ مسلمان ہیں اور نہ دین اسلام کو زیادہ سمجھنے کے لئے کتابیں میری ساری معلومات اور اسلامی کتب تک رسائی کا واحد ذریعہ انٹرنیٹ تھا۔
قرآن مجید میں بھی مہر کا تذکرہ آیا ہے کہ مرد کو عورت کا مہر دینا چاہیئے اور میں بھی یہ سمجھی کہ مرد کو شادی کے پہلے ہی یہ مہر کی رقم دینا چاہیئے اور پھر اس کے بعد شادی ہو ۔
جب میں ایران آئی تو میرے سننے میں آیا کہ بہت سے لوگوں کا مہر زیادہ ہونے کے سبب وہ لوگ جب ادا کرنے پر قادر نہ ہوئے تو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا مجھے بڑا تعجب ہوا کہ بھلا وہ چیز جو(مہر) شادی کے مقدس ہونے کی ضمانت ہو وہ کیسے کسی کے لئے مشکل ساز ہوسکتی ہے اگرچہ مہر لینا عورت کا حق ہے لیکن اس کی ایک حد ہونا چاہیئے اور چونکہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہیں لہذا میں نے شادی سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ میرا مہر بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔چنانچہ میں نے عقد سے پہلے اپنے شوہر سے تین چیزوں کا مطالبہ کیا:
چونکہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی شادی سے پہلے اپنی ذرہ کو فروخت کرکے شہزادی کونین(س) کا مہر ادا کیا تھا لہذا میں نے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ مجھے مہر دینے کے لئے آپ اپنے گھر والوں سے ایک پیسہ نہ لیجئے چنانچہ انہوں نے بھی ویسا ہی کیا اور مہر میں مجھے سونے کا ایک (تولہ) سکہ دیا کہ اس وقت اس کی قیمت 3 لاکھ تومان تھی لہذا میں نے بھی وہ سکہ فروخت کر اپنی مشترکہ زندگی کے لئے کچھ ضروری سامان خریدا اور وہ سارا پیسہ خرچ ہوگیا۔یہ حضرت فاطمہ و علی(ع) کی زندگی کا ایک پہلو تھا ۔شادی کوئی اقتصادی معاملہ اور اگریمنٹ نہیں ہے یہ زندگی کا ایک مقدس رشتہ ہے جس میں عورت و مرد کے حدود معین ہیں۔ یہ مہر کی رقم شادی کا ایک بہترین مقدمہ ہے البتہ یہ کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہیں اور چونکہ ان حضرات کی زندگی بہت سادہ تھی لہذا ہمیں اپنانا چاہیئے۔
By urdu • مستبصرین کے مضامین • 0 • Tags: آٹسکو ہوشینو, تازہ مسلمان خاتون, ٹوکیو کی تازہ مسلمان