یکم رجب اور امام باقر (ع) کی ولادت کا دن

 

ولادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

اس ماہ کی پہلی تاریخ کی شب و روز میں سرکار سیدالشہداء امام حسین (ع) کی زیارت پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: "جو شخص پہلی رجب کو امام حسین (ع) کی زیارت کرے تو خداوند عالم اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔ اگر کسی کے لئے امام حسین (ع) کے روضہ پر جانا ممکن نہ ہو اور وہ معصومین سے کسی معصوم کے روضہ پر جاکر آپ (ع) کی زیارت کرے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دور سے آپ کے روضہ کی طرف رخ کرکے سلام کے ذریعہ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرے۔

اس دن حضرت امام محمد باقر (ع) کی ولادت ہوئی ہے۔ آپ (ع) جمعہ کے دن پہلی رجب کو سن 57 ھ ق میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ آپ کا نام مبارک محمد اور کنیت ابوجعفر اور القاب باقر العلوم، الشاکر للہ، ہادی، امین و غیرہ ہے اور آپ کا آخری لقب آپ کے رسولخدا (ص) سے مشابہت کی بنا پر ہے۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام زین العابدین علی بن الحسین (ع) ہیں اور آپ کی والدہ گرامی، ام عبدالله  فاطمہ امام حسن (ع) کی بیٹی ہیں۔ امام محمد باقر (ع) ماں اور باپ دونوں کی طرف سے علوی ہیں اور آپ کا نسب شریف حضرت رسولخدا ،  حضرت امیرالمومنین علی مرتضی اور حضرت فاطمہ زہرا علیہم اسلام تک پہونچتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) ام عبداللہ فاطمہ بنت حسن کے بارے میں فرماتے ہیں: "میری جدہ ماجدہ صدیقہ تھیں اور امام حسن (ع) کی اولاد کے درمیان ان کے ہم پلہ اور ہم مرتبہ کوئی خاتون نہیں ہے۔”

اس خاتون کی عظمت و شرافت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضرت امام زین العابدین (ع) اور امام محمد باقر (ع) کے ہمراہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور آپ کے اور آپ کی پھوپھی حضرت زینب کبری (س) اور دیگر اہلبیت کے ہمراہ اسیر ہوئیں اور کوفہ و شام کے واقعات مشاہدہ کئے ہیں۔ حضرت امام باقر (ع) اپنے جد امام حسین (ع) کے ہمراہ کربلا آئے تھے اور اس وقت آپ کی عمر ساڑھے تین سال تھی۔ آپ شیعوں کے پانچویں امام اور رسولخدا (ص) کے ساتویں جانشین اور معصوم ہیں۔

حضرت امام باقر(ع) کی حکمت آمیز احادیث بہت ہیں۔ آپ ایک دینی اور مذہبی رہبر کے عنوان سے شیعوں کے نزدیک مورد احترام ہیں اور اہلسنت کے نزدیک ایک عظیم عالم دین اور فقیہ کے عنوان سے مورد احترام ہیں۔ آپ اپنے والد گرامی حضرت امام زین العابدین (ع) کی شہادت کے بعد سن 57 ق کو شیعوں کی امامت و ولایت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور آپ نے اموی حکومت کے ناگفتہ بد دور اقتدار اور ہرج و مرج کے زمانہ میں اہلبیت کے ماننے والوں کی رہبری اور ہدایت کی۔ جبکہ رسولخدا (ص) کی رحلت اور آپ کی ولادت کے درمیان 47/ سال کا فاصلہ ہے اس کے باوجود آپ تک جابر بن عبداللہ انصاری کی زبانی رسولخدا (ص) کا سلام پہونچا ہے۔

آپ (ع) کے القاب میں سے ایک لقب باقر ہے اور یہ مشہورترین لقب شمار ہوتا ہے اور اکثر مآخذ نے اس کی تصریح کی ہے۔ آپ علم کی مشکل سے مشکل گئھیوں کو سلجھانے والے اور علم و دانش کی پیچیدگی کو آسان بنانے والے ہیں۔ آپ معارف اور معلومات کی وسعت کے مالک تھے اسی وجہ سے آپ کو باقر کہاجاتا تھا۔

ماہ رجب کی پہلی تاریخ وہ مبارک تاریخ ہے کہ جب فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے بابرکت اور پر نور وجود سے عالمی ہستی کو روشن و منوّر کیا ۔ پروردگارا ہم اس مبارک دن کے موقع پرتجھ سے دعا کرتے ہیں کہ راہ مستقیم کی ہدایت و رہنمائی کرنے والے محمّد (ص) و آل محمّد (ص) پر درود بھیج اور ہماری آنکھوں سے غفلت و جہالت کے پردے ہٹادے تاکہ معرفت کے نور کے ساتھ ہم تیرے پاک اولیاء کے راستے پرچل سکیں ۔
امام محمّد باقر(ع) نے بھی دیگر بزرگان دین اور اولیائے خدا کی مانند اپنے علم و عمل سے دین اسلام کی بہترین خدمت کی ۔معاشرے میں دینی اقدار و تعلیمات کا فروغ ، غلط نظریات پرتنقید اور ان کا تجزیہ و تحلیل اور مختلف علمی و دینی میدانوں میں بہترین اور مفید شاگردوں کی تربیت اسلامی معاشرے کے لئے امام محمّد باقر (ع) کی خدمات کا ایک حصہ ہیں ۔
عظیم اہل سنت دانشور ابن ہیثم امام محمّد باقر (ع) کے بارے میں کہتے ہیں : اس عظیم امام اور پیشوا کو باقرالعلوم یعنی علوم کو چیرنے والے کا نام دیا گيا ۔ کیونکہ یہ علوم کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے تھے ۔ان کا علم و عمل انتہائی زيادہ اور رفتار و اخلاق پسندیدہ تھا اور انہوں نے اپنی پوری زندگی اطاعت خدا میں بسرکی تھی ۔

امام محمّد باقر (ع) نے آیات الہی کی تفسیر اور قرآن مجید کے معنوی حقائق کی تشریح و وضاحت کے سلسلے میں بہت زیادہ کوششیں کیں ۔اسی بنا پر آیات قرآن کی تشریح کے سلسلے میں بہت زيادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔
آپ فقہ و حدیث اور تفسیر کو بیان کرنے میں دو اہم اصولوں یعنی قرآن اور سنت پر زوردیتے تھے اور اپنے اصحاب سے فرماتے تھے کہ جب بھی میں تمہارے سامنے کوئی حدیث بیان کروں تو جان لو کہ اس حدیث کا سرچشمہ کتاب خدا ہے آپ کی امامت کے ابتدائی برسوں میں معاشرے کے اندر عقلی و کلامی بحثوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور دین کے حقائق کے بارے میں گہرا غور و فکر اور تدبر بدعت سمجھا جاتا تھا ۔ایسے حالات میں امام محمد باقر (ع) نے اپنے درسوں میں عقلی بحثیں شروع کیں اور لوگوں کو مختلف علوم میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی دعوت دی ۔آپ حقائق کے ادراک میں عقل کے کردار کو انتہائی اہم سمجھتے تھے اس سلسلے میں آپ نے فرمایا : خدا لوگوں کا ان کی عقل کے حساب سے مؤاخذہ کرے گا ۔
امام محمّد باقر (ع) نے اپنے اٹھارہ سالہ دور امامت میں ایک عظیم اور وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی اور اپنے فرزند ارجمند امام جعفر صادق (ع) کے دور امامت میں ایک عظيم اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے اسباب فراہم کئے ۔آپ کا علمی دائرہ انتہائی وسیع تھا اور صرف کلامی اور فقہی علوم تک محدود نہیں تھا ۔امام محمد باقر (ع) کے ایک ممتاز صحابی اور شاگرد جابربن یزید جعفی کہتے ہیں :
میں نوجوانی کے دور میں امام محمّد باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے پوچھا : کہاں سے اور کس کام کے لئے آئے ہو؟ میں نے کہا میں کوفہ کا رہنے والا ہوں اور آپ سے علم حاصل کرنے کےلئے مدینہ آیا ہوں ۔امام علیہ السلام نے خندہ پیشانی سے میرا خیر مقدم کیا اور مجھے ایک کتاب دی ۔ اس طرح میں ان کے شاگردوں میں شامل ہوگیا ۔تاریخ میں آیا ہے کہ جابربن یزید جعفی کو ستر ہزار حدیثیں یاد تھیں ۔

 

امام محمّد باقر (ع) کی زندگي کے خوبصورت ترین لمحے وہ تھے جب وہ اپنے خدا سے راز و نیاز کررہے ہوتے تھے ۔امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک رات میرے والد کافی دیر تک گھر نہ آئے ۔میں اس پر پریشان ہوگیا اور مسجد کی طرف گیا دیکھا کہ میرے والد امام محمّد باقر (ع) مسجد کے ایک گوشے میں خدا سے راز و نیاز میں مشغول ہیں جبکہ دوسرے لوگ اپنے گھروں کو جاچکے تھے ۔وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنی پیشانی زمین پر رکھ کر کہہ رہے تھے :
اے پاک و منزہ خدا تو پروردگار حق و حقیقت ہے ۔خدایا میں نے تیرے سامنے عبودیت بندگی اور فروتنی کی بنا پر سجدہ کیا ہے ۔خدایا میرے نیک اعمال ناچیز ہیں پس تو میرے ان اعمال میں اضافہ فرما اور قیامت کے دن مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنی عفو وبخشش کا حقدار قراردے کیونکہ صرف تو ہی توبہ قبول کرنے اور بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
امام محمّد باقر (ع) اپنے جود و سخا اور بخشش میں مشہور تھے ۔آپ ہمیشہ اپنے اہل خانہ سے کہتے تھے کہ جو ضرورت مند گھر کے دروازے پرآئیں ان کا احترام کریں ۔امام (ع) کے ایک خادم نے روایت کی ہے کہ امام علیہ السلام کے صحابہ اور جاننے والے جب آپ کے پاس آتے تھے تو آپ نے انہیں اچھا کھانا کھلاتے تھے اور کبھی انہیں اچھا لباس بھی عطا کرتے تھے اور بعض اوقات پیسوں کے ذریعے بھی ان کی مدد کرتے تھے ۔
خادم کہتا ہے کہ ایک دن میں نے امام علیہ السلام سے اس سلسلے میں بات کی اور کہا کہ وہ اپنے اس جود و سخا اور عطا و بخشش کو کچھ کم کردیں کیونکہ مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں ۔لیکن امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :
دنیا میں بھائیوں سے ملاقات ، ان کو چیزیں دینے اور نیکی و بھلائی کرنے سے بڑھ کر کوئی اچھی چیز نہیں ہے ۔
امام محمّد باقر علیہ السلام ہمیشہ اپنے پیروؤں کو اس بات سے خبردار کرتے تھے کہ کہیں وہ راہ حق کی سختیوں کی بنا پر اس سے دست بردار نہ ہوجائیں ۔آپ فرماتے تھے : حق اور حقیقت کے بیان کی راہ میں استوار اور ثابت قدم رہئے کیونکہ اگر کسی نے ” مشکلات کی بنا پر ” حق کا انکار کیا اور اس سے چشم پوشی کی تو وہ ” باطل راستے میں ” زيادہ مشکلات سے دوچار ہوجائے گا۔ امام کی تعبیر کے مطابق جادۂ حق روشن اور سیدھا راستہ ہے ۔اگر انسان اس سیدھے راستے سے ہٹ گیا تو وہ باطل کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر بے پناہ مشکلات کا شکار ہوجائے گا ۔
امام محمّد باقر علیہ السلام کی نظر میں دانشور دانائي کے مظہر اور حکمران انتظامی طاقتوں کی حیثیت سے قوموں کے سعادت یا شقاوت کے راستے تک پہنچنے کے اہم عوامل ہیں ۔آپ فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ جب بھی میری امت کے دو گروہ نیک و صالح ہوئے تو میری پوری امت نیک و صالح ہوگی اوراگر یہ دوگروہ برے اور بدعنوان ہوئے تو میری تمام امت کو برائی اور بدعنوانی کی طرف لے جائیں گے ۔ان میں سے ایک گروہ فقہا اور دانشور ہیں اور دوسرا گروہ حکمران اور فرمانروا ہیں ۔
اموی حکمراں لوگوں میں امام محمّد باقر علیہ السلام کی مقبولیت سے ہمیشہ پریشان اور خوفزدہ رہتے تھے ۔امام علیہ السلام کےدور میں کئی اموی حکمران گزرے جن میں سے ہشام بن عبدالملک نے آپ سے سب سے زيادہ سخت رویہ اور سلوک روا رکھا ۔اس کے مقابلے میں امام علیہ السلام نے بھی خاموشی کا راستہ اختیار نہیں کیا اور خوف و وحشت کی فضا کے باوجود حکمرانوں کی برائیوں کو حتیٰ ان کے سامنے بھی آشکار کیا ۔امام محمّد باقر علیہ السلام ستمگروں اور ظالموں کے ساتھ رویے اور سلوک کے بارے میں فرماتے ہیں۔
اقتدار و طاقت کے ہتھیار کو ان کے خلاف استعمال کرنا چاہئے جو لوگوں پر ظلم اور زمین میں سرکشی کرتے ہیں ۔۔۔ ان عناصر کے سامنے جان کے ساتھ جہاد کا پختہ عزم رکھنا چاہئے جیسا کہ دل میں بھی ان کے ساتھ بغض و عداوت رکھنی چاہئے ۔
امام محمّد باقر علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت کی ایک بار پھر مبارکباد کے ساتھ اپنے پروگرام کا اختتام امام علیہ السلام کے ان زرین اقوال سے کرتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں ۔
جو بھی خدا پر توکل کرے مغلوب نہیں ہوگا اور جس نے بھی گناہ سے خدا کی پناہ مانگی وہ شکست نہیں کھائے گا ۔
ایک اور مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں ۔
بردباری اور شکیبائي دانا اورعالم شخص کا لباس ہے ۔
امام محمّد باقر علیہ السلام کا ایک اور زریں قول ہے ۔
خدا کی جانب سے نعمتوں کی فراوانی کا سلسلہ نہیں ٹوٹتا ہے مگر یہ کہ بندے شکر کرنا چھوڑدیں ۔