مولانا اسماعیل دیوبندی کیسے شیعہ ہوئے؟ زندگی کا اہم واقعہ

 

مولانا محمد اسماعیل پاکستان کے بہت بڑے مناظرے کے خطيب تھےلوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ شیعوں کو کافر کہتے تھے نفرت کرتے تھے آپ شيعہ کیسے ہوئے؟مولانا اسماعیل کہتے تھے میری زندگی کا ایک واقعہ میں ایک جگہ گیا۔ میں نے ایسے ایسے جملے کہے کہ میں نے  مناظرہ جیت لیا۔ اور ہر کوئی میرے ہاتھوں اور پیروں کے بوسے لے رہا تھا۔ میرے اردگرد اتنا بڑا اہلسنت کا اجتماع تھا اور وہ مجھے معجزہ کہہ رہے تھے کہ اتنے میں میرا میزبان میرے قریب آیا اور دھیمی آواز میں کہا مولانا علامہ ہمارے گاوں کا ایک شیعہ وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔

میں نے گالی دی اُس نے کہا مولانا آپ گالی نہیں دے سکتے۔ میں نے کہا شیعہ ھے کافر ہے اُس نے کہا نہیں مولانا وہ سید ہے مولانا گالی دوبارہ نہ دیجیے گا وہ سید ہے وہ اولاد زہرا میں سے ھے مولانا وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بم اس کا بہت ادب کرتے ہیں آپ پابند ہیں آپ بھی گستاخی نہیں کریں گے، اور احترام کریں گے میں نے کہا ٹھیک ہے اتنے میں ایک دیہاتی بوڑھا شخص ظاہر ہوا وہ قریب آیا ادب سے دھیمی سی آواز میں وہ گویا ہوا.

اس نے کہا مولانا آپ بہت بڑے عالم ہیں آپ خطیب ہیں آپ مناظر ہیں میرے پاس علم نہیں میں سیدھا سادہ دیہاتی ہوں میرے پاس آپ جتنی معلومات نہیں میرا آپ کا کوئی مقابلہ نہیں میرے صرف آپ سے تین سوال ہیں ہاں یا ناں میں جواب دیجیے گا.مجھے یہ بتائیے کہ کیا نبی کی بیٹی جسکا نام فاطمہ تھا، کیا نبی کی رحلت کے بعد دربار میں گئی؟مولانا کہتے ہیں، میں نے کوشش کی کچھ بولنے کی سید بولا نہیں مولانا صرف ایک جواب یا ہاں یا ناںرسول کی بیٹی دربار میں گئی میں نے کہا ہاں گئی کہتا ہے مولانا پھر ایک اور سوال ہے، اس نے کچھ مانگا بھی تھا؟مولانا کہتے ہیں میں پھر کچھ اور کہنے کی کوشش میں تھا کہ سید بولا یا ہاں یا ناں رسول کی بیٹی نے مسلمانوں سے کچھ مانگا بھی؟ میں نے کہا ہاں مانگا تو تھا کہتا ہے مولانا تیسرا اور آخری سوال جواب صرف ہاں یا ناں میں تو مسلمانوں نے دیا یا خالی لوٹا دیا؟ مولانا کہتے ہیں میں نے کہا خالی لوٹا دیاسید نے سارے سوالوں کے دوران سر جھکایا ہوا تھا اس جواب کے بعد سر اوپر اٹھا کر میری آنکھوں میں دیکھا اُس سید کی آنکھوں میں آنسو تھے اُداسی و بے بسی سے مجھے کہا بس مولانا مجھے آپ سے یہی پوچھنا تھا.

میرے قریب جو بڑے بڑے اہلسنت تھے بڑی بڑی لاٹھیاں لے کے کھڑے ہو گئے اور بولے مولانا اُن کمبختوں کا نام بتائیے ایک چیخ و پکار کا سماں بن گیا جو ماحول خوشی اور جشن کا تھامولانا اسماعیل کہتے ہیں میری زندگی کا یہ واقعہ تھا میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا وہی وقت تھا جب میں نے اپنا مسلک تبدیل کیامیں آج بھی سوچھتا ہوں اُن لوگوں کو صرف یہ پتا کہ زہرا دربار گئی اور وہ دکھ اور غصے سے نڈھال ہو گئے اگر یہ جان جائیں کہنبی کی بیٹی دربار خود نہیں گئی بلکہ مسلمانوں نے بولائی گئی تھیں وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جس دروازے پہ نبی آکر سلام کیا کرتے تھے مسلمانوں نے اُس دروازے کو جلا ڈالا اور پھر نبی کی بیٹی پر مسلمانوں نے وہی جلتا ہوا دروازہ  گرایا نبی کا نواسہ محسن شکم مادر میں شہید ہو گیا میں نے یہ بتایا کہ صرف دربار بلایا یہ نہیں کہ تین گھنٹے کھڑے رکھا خود کرسیوں پہ بیٹھے ہنستے رہے یہ بھی چھپا لیا کہ نبی کی تحریر کو صرف جٹھلایا نہیں بلکہ ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور نبی کی بیٹی خود چنتی رہی اور روتی رہینبی کی بیٹی آٹھارہ سال کی تھی پر دربار کے واقعے کے بعد سر کے بال سفید ہو گئے یہ بھی نہیں بتایا کہ نبی کی بیٹی نبی کی رحلت کے بعد تین دن تک صف بچھا کر مسلمانوں کے پُرسے کی راہ دیکھتی رہی پر مسلمانوں نے رونے پر پابندی لگا کر مدینے سے باہر نکال دیا……