عید الغدیر یا یوم غدیر خم

 

یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ

” اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“۔

عید غدیر محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ اسے ایک اسلامی دن قرار دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس دن خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا:

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (سورہ مائدہ، آیہ 3)

آج کے دن ہم نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں مکمل کر دیں اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو چن لیا”۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام ائمہ معصومین علیھم السلام نے عید سعید غدیر کے دن خوشی منانے اور اس دن کی یاد تازہ رکھنے پر خاص تاکید کی ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام نے عید سعید غدیر کو "عید الاکبر” یعنی بڑی عید کے طور پر یاد کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن نہ صرف حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ بلافصل کے طور پر تعیین کیا گیا بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دستور الہی کے تحت اپنے بعد آنے والے تمام جانشینوں یعنی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی علیہ السلام کے گیارہ فرزندان کا نام لے کر انہیں لوگوں کو پہچنوایا اور آخر الزمان میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خوشخبری بھی سنائی۔

اہل تشیع کا ایک خصوصی دن ہے جو 18 ذی الحجہ کو منایا جاتا ہے۔اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔ اور ارشاد فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ” جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں”

10ھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق 26 ذیقعدہ مطابق 22 فروری 633ء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے چلے۔ اس مقدس سفر میں جو لوگ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کی تعداد 90 ہزار سے کم نہ تھی اسی طرح دوسرے علاقوں سے جو لوگ مکہ پہنچے تھے وہ بھی ہزاروں میں تھے۔ جیسا کہ حضرت علی بھی یمن سے حاجیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ مناسک حج بجا لانے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کو الوداع کہا اور ارض حرم سے رخصت ہو گئے۔

جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لئے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔

ساحل غدیر پر قافلے کو رکنا پڑا کیونکہ جبریل وحی لے کر آئے تھے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نوائے سروش پر ہمہ تن گوش تھے۔

اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے.

سب حاجیوں کو جمع کیا گیا اور پالان شتر سے ایک منبر تیار کیا گیا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا۔

"کیا تمہیں میرا اپنے پروردگار کی جانب سے رسول ہونے اور جو کچھ میں نے دعوی کیا اس کے بارے میں شک ہے۔”

سب لوگوں نے مل کر جواب دیا اے اللہ کے رسول ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امانت ادا فرمائی۔

اس اہم مطلب کو دو حصوں میں بیان کرتے ہیں ۔

 

خطبہ غدیر کے چند اہم نکات خطبہ غدیر پر ایک سرسری نگاہ کرنے سے کچھ اہم نکات نظر آتے ہیں جو درج ذیل ہیں :

  • پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ کے مختلف موارد میں اپنی تبلیغ پر خداوند عالم کو گواہ بنانا۔
  • پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مختلف مواقع پر اپنے پیغام کو پہنچانے پر لوگوں کو گواہ بنانا۔
  • خطبہ کے دوران قرآن کی آیتوں کو بطور شاہد پیش کرنا۔
  • خطبہ کے دوران کئی جگهوں پر اپنے بعد بارہ اماموں کی امامت کے مسئلہ پرتاکید کرنا۔
  • حرام وحلال کے تبدیل نہ ہونے اور اماموں کے ذریعے ان کے بیان ہونے پر تاکید کرنا۔
  • خطبہ میں بہت ساری آیتوں کی اہل بیت علیہم السلام کے ذریعے تفسیر کرنا۔
  • کئی مقامات پر منافقین کے گذشتہ اور آئندہ اقدامات کی طرف کبھی صاف طور پراور کبھی تلویحاً اشارہ کرنا۔
  • خطبہ کے پہلے آدھے حصہ کو امیر المومنین علی کی ولایت کے رسمی اعلان سے مخصوص کرنا اور اس بنیادی مطلب اوراصل مو ضوع کو بیان کر نے کے بعد اس کے سلسلہ میں وضاحت نیز دوسرے مطالب جیسے نماز۔ زکات ،حج وغیرہ کا بیان کرنا۔

خطبہ غدیر کے مطالب کی موضوعی تقسیم وہ مطالب جو ذیل میں۲۱ عنوان کے تحت ذکر ہوئے ہیں خطبہ غدیر جو انشاء اللہ چھٹی اور ساتویں فصل میں ذکر ہو گا کے متن سے لئے گئے ہیں ان کو ذکر کرنے سے پہلے چارنکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے :

  1. وہ موضوعات جو مد نظر رکھے گئے ہیں اور ان کا ذکر کیا ہے خطبہ کے اہم مطالب سے مربوط ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر زیادہ زوردیا ہے اگر خطبہ کے تمام مطالب کا ذکر کیا جائے تو ایک مفصل مو ضوعی فہرست درکار ہے ۔
  2. اختصار کی وجہ سے خطبہ کی عبارتوں کو مختصر تلخیص کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
  3. ہرعبارت کے آخر میں بریکٹ کے اندر خطبہ کے گیارہ حصوں میں سے جس کے اندر وہ عبارت ذکر ہوئی ہے اس کا ایڈرس نیچے دیا گیا ہے ۔
  4. اس موضوعی تقسیم کے عناوین درج ذیل ہیں :
  • توحید۔
  • پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت۔
  • علی بن ابی طالب کی ولایت۔
  • بارہ معصوم اماموں کا تذکرہ۔
  • اہل بیت کے فضائل۔
  • امیرالمومنین کے فضائل۔
  • امیرالمومنین کا لقب۔
  • اہل بیت کا علم ۔
  • حضرت مہدی (عج)۔
  • اہل بیت کے شیعہ اور محبّین۔
  • اہل بیت کے دشمن۔
  • گمراہ کرنے والے امام۔
  • اتمام حجت۔
  • بیعت۔
  • قرآن۔
  • تفسیر قرآن۔
  • حلال و حرام۔
  • نمازاور زکات۔
  • حج اور عمرہ۔
  • امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔
  • قیامت ۔