مولانا محمد اسماعیل دیوبندی

 

اسماعیل دیوبندی

زمرہ جات: مستبصرین کی سوانح حیات

 

  • ولدیت: مولانا سلطان علی مرحوم
  • وفات: 15 جمادی الثانی 1396ھ، 14 جون 1976ء
  • مدفن: کربلا دھپ شاہ فیصل آباد

مولانا محمد اسماعیل گوجروی کی پیدائش سلطان پور لدھیانہ کپور تھلہ میں 1901ء میں ہوئی اور وفات 14 جون 1976ء کو فیصل آباد میں ہوئی۔

مولانا محمد اسماعیل 1901ء کو بمقام سلطان پور لوہیاں نزد فرید سرائے ریاست کپور تھلہ ضلع جالندھر کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جماعت اہل حدیث کے ایک جید عالم دین تھے جو مرتے دم تک آبائی مذہب پر رہے مولانا سلطان علی کا انتقال 112 برس کی عمر میں حضرت مبلغ اعظم کے انتقال سے چند سال قبل ہوا تھا۔

آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد مبادیات پڑھنے کے لیے حکیم محمد حسن میثم پوری کے شہر میثم پور چلے گئے۔ پھر رائے پور میں حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ (م 1382ھ) سے استفادہ کیا اس کے بعد مدرسہ خیر المدارس جالندھر میں داخل ہو گئے جہاں حضرت خیر محمد جالندھری (م 1390ھ) اور حضرت مولانا محمد علی جالندھری (م 1391ھ) کے سامنے زانوائے ادب تہ کیا وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر دیوبند کا رخ کیا جہاں شیخ الحدیث حضرت مولانا سید انور شاہ کاشمیری اور شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی سے اخذ فیض کیا۔ پھر آپ ڈابھیل چلے گئے جہاں شیخ القرآن حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی سے قرآن پاک کی تفسیر پڑھی۔

یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دیوبندی حضرات کی مسجد "مسجد اکبری” میں خطیب ہو گئے۔ اسی دوران آپ کی کسی شیعہ سے ملاقات ہو گئی جس نے شیعیت کی دعوت دی آخر آپ نے تحقیق و جستجو کرنا شروع کی اور کچھ عرصہ کے بعد شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ رد عمل کے طور پر آپ کے عزیز و اقارب حتی کہ والد صاحب نے بھی علیحدگی اختیار کر لی لیکن جب آدمی حق و حقیقت کو پا لیتا ہے تو پھر تختہ دار کی طرف بھی ہنستا ہوا چل پڑتا ہے۔ کسی کی مخالفت کی آپ نے پروا نہ کی۔ اسی دوران آپ کے ٢ بیٹے "محبوب عالم ” اور "بدر عالم” انتقال کر گئے۔

شیعہ ہونے کے بعد آپ نے تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیا جس میں کمال حاصل کیا۔ اسی دوران مسلم لیگ کے لیے کام کیا جب پاکستان بن گیا، تو آپ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔

مبلغِ اعظم, مولانا محمد اسماعیل محمدی (دیوبندی) جناب مولانا فاضل حسین علوی کے استاد ہیں۔ اسماعیل دیوبندی پہلے دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے بعد میں انہوں نے شیعہ اثنا عشری مسلک قبول کیا۔ یہ شیعہ اسلام کے بہت بڑے مناظر تھے۔ ان کو مبلغ اعظم کا لقب ملا۔

مبلغ اعظم صرف مناظر ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک بلند پایہ خطیب و مبلغ بھی تھے جن کی تقریروں نے ہزارہا لوگوں کو مذہب شیعہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

مولانا صاحب مدرسہِ دیوبند سے فارغ التحصیل عالم تھے مگر بعد ازاں مذہبِ حقہ کی صداقت سے متاثر ہو کر مذہبِ اہلِ بیت قبول کیا اور پھر تمام عمر بطور مبلغ و مناظر اسی مذہب حقہ کی ترویج میں بسر کی اور مبلغِ اعظم خطاب پایا. مولانا شاندار بارعب شخصیت کے مالک تھے۔

کہا کرتے تھے کہ اندرونی طور پر مومنین اتحاد رکھیں باہر سے کسی کو میں نقصان نہیں پہنچانے دوں گا. زندگی بھر بے شمار مناظرے کیے. آج بھی علما مناظرے کرنے کے لیے آپ ہی کے کیے ہوئے مناظروں سے کسبِ فیض حاصل کرتے ہیں۔ جہاں بھی مجالس پڑھنے جاتے ساتھ میں کتابوں کا صندوق ساتھ لے کر جاتے اور دورانِ مجلس کتب کھول کے دکھاتے. آپ کی رحلت کے بعد بہت سے مناظرینِ مذہبِ حقہ نے آپ کا انداز اپنانے کی کوشش کی.

مبلغ اعظم نے فرمایا:

آل محمد کے ماننے کے تین رکن ہیں۔

  1.  اہل بیت کی امامت پر ایمان لانا
  2. اہل بیت کی محبت کو واجب سمجھنا
  3. اہل بیت کے دشمنوں سے بیزار ہو جانا

جو آل محمد کی امامت پر ایمان نہیں لایا، جس نے آل محمد کی محبت کو واجب نہیں سمجھا اور جو اہل بیت کے دشمنوں سے بیزار نہ ہوا وہ یا تو اہل بیت کو مانتا نہیں یا پھر وہ ماننا جانتا نہیں۔

مبلغ اعظم کی وصیت:

میں تمہاری قوم کا مشہور مبلغ ہوں۔ جب میں مر جاؤں تو میری کتابیں یاد نہ رکھنا، میرے مناظرے یاد نہ رکھنا لیکن میری 2 وصیتیں نہ بھولنا :-

  1. خون حسین علیہ السلام نہ بھولنا
  2. چادر زینب سلام اللہ علیہا نہ بھولنا