"جسے اللہ مل گیا، اُسے اسلام بھی مل گیا۔”

میرے بھائی 2000 میں ایک ملازمت کے سلسلے میں ڈیربورن منتقل ہوئے، پھر میری والدہ بھی اُن کے پیچھے یہاں آگئیں، اور اس کے بعد میری بہن بھی یہاں آگئی۔ اور حسبِ معمول، میں سب سے آخر میں یہاں آیا۔
میں کچھ وقت کے لیے واپس گیا، کیلیفورنیا میں کام کرتا رہا، پھر دوبارہ یہاں آ گیا۔
یہ ایک اچھا کمیونٹی علاقہ ہے، خاص طور پر میری بیوی اور بیٹی کے لیے، کیونکہ دونوں حجاب پہنتی ہیں۔
یہاں رہ کر آپ کو لگتا ہے کہ آپ واقعی مسلم کمیونٹی کا حصہ ہیں، حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ کمیونٹی بھی مکمل طور پر مثالی نہیں۔
لیکن جب میری بیوی اور بیٹی باہر جاتی ہیں، تو کوئی اُنہیں عجیب نظروں سے نہیں دیکھتا، نہ ہی اُنہیں پریشان کیا جاتا ہے۔
تو یہاں رہنا زیادہ آرام دہ ہے۔
ہم ایک ایسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، تو آپ زیادہ خود کو محسوس کرتے ہیں، اپنی شناخت کے ساتھ جینے میں آسانی ہوتی ہے، اور آپ کو ہمیشہ اپنی پہچان چھپانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
"اسلام اس لیے نہیں آیا کہ ثقافت کو مٹا دے، بلکہ اس لیے آیا کہ اُسے بہتر بنائے، اُس کی اصلاح کرے۔"
اگر آپ مشکل وقت سے گزر رہے ہیں تو میں آپ کو اپنا مشورہ دے سکتا ہوں، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے کیا کیا، لیکن ضروری نہیں کہ وہی طریقہ آپ کے لیے بھی کام کرے، کیونکہ ہر شخص مختلف ہوتا ہے اور ہر صورتحال بھی مختلف ہوتی ہے۔
میں مدد کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن اللہ پر ایمان رکھیں، دعا کریں، اور خود کو ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش کریں۔
کیونکہ اگر آپ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، تو خود کو قابلِ توجہ بنانا ہوگا — میرا مطلب ظاہری خوبصورتی نہیں ہے،
بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنے ایمان کو بہتر بنائیں،
اور معاشرے میں ایک باوقار، علم والا اور باکردار شخص بن کر رہیں۔
اگر آپ ایسا کریں گے، تو لوگ — مختلف پسِ منظر سے — خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔
لہٰذا خود کو ایسا انسان بنانے کی کوشش کریں۔
جب میں 1980 کی دہائی میں مسلمان ہوا، اُس وقت انٹرنیٹ نہیں تھا۔
اگر ہمیں اسلام کے بارے میں کوئی کتاب چاہیے ہوتی، تو ہمیں واقعی کسی بک اسٹور کو تلاش کرنا پڑتا تھا، کتابوں کی میزوں پر جانا پڑتا تھا، اصل کتاب خریدنی پڑتی تھی، اور اُسے خود پڑھنا پڑتا تھا — اور اپنی جیب سے رقم خرچ کرنی پڑتی تھی۔
ہمیں خود لوگوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا، اُن سے ملنا پڑتا تھا۔
انٹرنیٹ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، کہ بس گوگل پر سرچ کریں اور معلومات حاصل ہو جائے۔
یہ سب کچھ واقعی مشکل تھا، اسلام کے بارے میں سیکھنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔
لیکن آج کے دور میں یہ سب بہت آسان ہو گیا ہے — معلومات وافر مقدار میں دستیاب ہیں، اور چیزیں تلاش کرنا آسان ہو گیا ہے۔
اور میں یہی بات اُن امریکیوں کے بارے میں بھی کہوں گا جو اسلام کے بارے میں نہیں جانتے، اور یوں اسلام کو جاننے اور مسلمان ہونے کے اُس شاندار موقع سے محروم ہیں۔
یہ اُنہی کی کوتاہی ہے، کیونکہ آج معلومات کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اپنے آپ کو چیلنج کریں، ذہنی و فکری طور پر ترقی کریں۔
اپنی موجودہ حالت پر قناعت نہ کریں۔
صرف نو سے پانچ کی نوکری کر کے، گھر آ کر سونا، بار جانا، ڈسکو جانا، ساری کمائی اُڑا دینا —
ایسی زندگی پر مطمئن نہ ہوں، کیونکہ وہ زندگی نہیں، وہ تو صرف وقت گزارنا ہے۔
کبھی کبھی خود کو بے آرام محسوس ہونے دیں، اُن کاموں کی طرف بڑھیں جن پر آپ کو یقین نہ ہو، غلطیاں کریں۔
ایسے سوالات پوچھیں جن پر لوگ شاید تنقید کریں —
اپنے آپ کو سامنے لائیں، دنیا کو موقع دیں کہ وہ آپ کو جانے، اور آپ خود کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہوں۔
"زندگی میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو آپ کو سوال اُٹھانے پر آمادہ کرتا ہے۔"
سب سے اہم چیز آپ کی نیت کی پاکیزگی اور خلوص ہے — سب کچھ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیسے میرے بھائی نے کہا۔
جب وہ مسلمان ہوا، تو اُس نے دل سے اللہ سے دعا کی:
"اے خدا! مجھے ہدایت دے، میں ہدایت چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم اس کے بعد کیا ہوگا، نہ یہ کہ اللہ مجھ سے کیا چاہے گا، یا مجھ سے کیا مطالبہ کرے گا، لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ مجھے صرف ہدایت چاہیے۔ میں سچے دل سے ہدایت مانگ رہا ہوں۔”
بس یہی کافی ہے۔
نہ آپ کو کالج گریجویٹ ہونا ضروری ہے، نہ عربی زبان جاننا۔
یہ سب چیزیں ثانوی ہیں۔
جو چیز اصل میں درکار ہے، وہ اخلاص ہے —
سچے دل سے، پاک نیت کے ساتھ، صرف اللہ کے لیے، خالص ارادہ۔
لوگ کیا سوچتے ہیں، اُسے بھول جائیں۔
اللہ کے ساتھ اپنا تعلق سچا بنائیں۔
مجھے معلوم نہیں یہ بات لوگوں کے لیے اتنی مشکل کیوں ہے —
میرے لیے بھی مشکل ہے، قسم سے۔
اکثر مجھے لگتا ہے کہ میں روحانیت میں ابھی وہ ترقی نہیں کر پایا جو ہونی چاہیے تھی۔
اگرچہ میں نے مسلمان ہونے کے بعد بہت کوشش کی ہے،
لیکن آج بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو میں مزید کر سکتا ہوں —
اپنے آپ کو روحانیت میں مزید بہتر بنانے کے لیے۔
ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کا ایمان ہم سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ مسلمان ہیں، تو ہمیں تو شرم آتی ہے اپنے آپ کو مسلمان کہنے میں۔
آخر میں اُس مقام تک کیوں نہیں پہنچا؟
آپ ہی بتائیں، شاید میرے اخلاص میں کمی ہے۔
اگر میں نے زندگی میں کچھ سیکھا ہے، یا میری شخصیت میں کوئی بھی اچھائی ہے
تو وہ امام حسین (علیہ السلام) کے قدموں کی خاک کا صدقہ ہے۔
سچ کہوں تو، میں خود کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اُن کے قدم چوم سکوں۔
انسان، چاہے جتنا بھی گرا ہوا ہو، ہمیشہ اوپر اٹھ سکتا ہے۔
ہمیشہ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ کوئی نہ کوئی راہ پیدا کرتا ہے جس سے تم ترقی کر سکو۔
اور اس ترقی کی کنجی کیا ہے؟
اخلاص۔
اپنے ساتھ سچائی، اللہ کے سامنے سچائی — نیت کا خالص ہونا۔ یہی اصل راز ہے۔
اگر تمہارے اندر یہ اخلاص موجود ہے،
تو نہ تمہیں انٹرنیٹ کی ضرورت ہے،
نہ کتابوں کی۔
ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے پڑھنا لکھنا تک نہیں سیکھا —
لیکن روحانیت میں وہ اتنی بلندی تک پہنچے، کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت بار ایسے لوگوں سے ملاقات کی ہے جو کہتے ہیں،
"مجھے معلوم ہے کہ اسلام صحیح دین ہے، اور میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، یہ ایک خوبصورت دین ہے، لیکن میں شراب نوشی ترک نہیں کر سکتا، مجھے شراب سے محبت ہے۔"
لوگ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے،
"ہمیں آپ کا دین پسند ہے، لیکن کیا آپ نماز کو ہٹا سکتے ہیں؟ کیا آپ سجدہ کو ہٹا سکتے ہیں؟"
تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دیتے،
"یہ میرا دین نہیں، یہ اللہ کا دین ہے، اور میں کچھ بدل نہیں سکتا۔"
لیکن یہی چیزیں ہیں جو لوگ چاہتے ہیں۔
تو بہت سے لوگ جو روحانی ترقی نہیں کر پاتے، درحقیقت وہ بزدل ہوتے ہیں۔
جولائی 3 2025
مستبصرین – علی اسمارت – چوتھا حصہ
"جسے اللہ مل گیا، اُسے اسلام بھی مل گیا۔”
میرے بھائی 2000 میں ایک ملازمت کے سلسلے میں ڈیربورن منتقل ہوئے، پھر میری والدہ بھی اُن کے پیچھے یہاں آگئیں، اور اس کے بعد میری بہن بھی یہاں آگئی۔ اور حسبِ معمول، میں سب سے آخر میں یہاں آیا۔
میں کچھ وقت کے لیے واپس گیا، کیلیفورنیا میں کام کرتا رہا، پھر دوبارہ یہاں آ گیا۔
یہ ایک اچھا کمیونٹی علاقہ ہے، خاص طور پر میری بیوی اور بیٹی کے لیے، کیونکہ دونوں حجاب پہنتی ہیں۔
یہاں رہ کر آپ کو لگتا ہے کہ آپ واقعی مسلم کمیونٹی کا حصہ ہیں، حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ کمیونٹی بھی مکمل طور پر مثالی نہیں۔
لیکن جب میری بیوی اور بیٹی باہر جاتی ہیں، تو کوئی اُنہیں عجیب نظروں سے نہیں دیکھتا، نہ ہی اُنہیں پریشان کیا جاتا ہے۔
تو یہاں رہنا زیادہ آرام دہ ہے۔
ہم ایک ایسی جگہ پر رہتے ہیں جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، تو آپ زیادہ خود کو محسوس کرتے ہیں، اپنی شناخت کے ساتھ جینے میں آسانی ہوتی ہے، اور آپ کو ہمیشہ اپنی پہچان چھپانے کی ضرورت نہیں رہتی۔
"اسلام اس لیے نہیں آیا کہ ثقافت کو مٹا دے، بلکہ اس لیے آیا کہ اُسے بہتر بنائے، اُس کی اصلاح کرے۔"
اگر آپ مشکل وقت سے گزر رہے ہیں تو میں آپ کو اپنا مشورہ دے سکتا ہوں، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ میں نے کیا کیا، لیکن ضروری نہیں کہ وہی طریقہ آپ کے لیے بھی کام کرے، کیونکہ ہر شخص مختلف ہوتا ہے اور ہر صورتحال بھی مختلف ہوتی ہے۔
میں مدد کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن اللہ پر ایمان رکھیں، دعا کریں، اور خود کو ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش کریں۔
کیونکہ اگر آپ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں، تو خود کو قابلِ توجہ بنانا ہوگا — میرا مطلب ظاہری خوبصورتی نہیں ہے،
بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنے ایمان کو بہتر بنائیں،
اور معاشرے میں ایک باوقار، علم والا اور باکردار شخص بن کر رہیں۔
اگر آپ ایسا کریں گے، تو لوگ — مختلف پسِ منظر سے — خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔
لہٰذا خود کو ایسا انسان بنانے کی کوشش کریں۔
جب میں 1980 کی دہائی میں مسلمان ہوا، اُس وقت انٹرنیٹ نہیں تھا۔
اگر ہمیں اسلام کے بارے میں کوئی کتاب چاہیے ہوتی، تو ہمیں واقعی کسی بک اسٹور کو تلاش کرنا پڑتا تھا، کتابوں کی میزوں پر جانا پڑتا تھا، اصل کتاب خریدنی پڑتی تھی، اور اُسے خود پڑھنا پڑتا تھا — اور اپنی جیب سے رقم خرچ کرنی پڑتی تھی۔
ہمیں خود لوگوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا، اُن سے ملنا پڑتا تھا۔
انٹرنیٹ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، کہ بس گوگل پر سرچ کریں اور معلومات حاصل ہو جائے۔
یہ سب کچھ واقعی مشکل تھا، اسلام کے بارے میں سیکھنے کے لیے ہمیں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔
لیکن آج کے دور میں یہ سب بہت آسان ہو گیا ہے — معلومات وافر مقدار میں دستیاب ہیں، اور چیزیں تلاش کرنا آسان ہو گیا ہے۔
اور میں یہی بات اُن امریکیوں کے بارے میں بھی کہوں گا جو اسلام کے بارے میں نہیں جانتے، اور یوں اسلام کو جاننے اور مسلمان ہونے کے اُس شاندار موقع سے محروم ہیں۔
یہ اُنہی کی کوتاہی ہے، کیونکہ آج معلومات کی کوئی کمی نہیں ہے۔
اپنے آپ کو چیلنج کریں، ذہنی و فکری طور پر ترقی کریں۔
اپنی موجودہ حالت پر قناعت نہ کریں۔
صرف نو سے پانچ کی نوکری کر کے، گھر آ کر سونا، بار جانا، ڈسکو جانا، ساری کمائی اُڑا دینا —
ایسی زندگی پر مطمئن نہ ہوں، کیونکہ وہ زندگی نہیں، وہ تو صرف وقت گزارنا ہے۔
کبھی کبھی خود کو بے آرام محسوس ہونے دیں، اُن کاموں کی طرف بڑھیں جن پر آپ کو یقین نہ ہو، غلطیاں کریں۔
ایسے سوالات پوچھیں جن پر لوگ شاید تنقید کریں —
اپنے آپ کو سامنے لائیں، دنیا کو موقع دیں کہ وہ آپ کو جانے، اور آپ خود کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہوں۔
"زندگی میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو آپ کو سوال اُٹھانے پر آمادہ کرتا ہے۔"
سب سے اہم چیز آپ کی نیت کی پاکیزگی اور خلوص ہے — سب کچھ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیسے میرے بھائی نے کہا۔
جب وہ مسلمان ہوا، تو اُس نے دل سے اللہ سے دعا کی:
"اے خدا! مجھے ہدایت دے، میں ہدایت چاہتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم اس کے بعد کیا ہوگا، نہ یہ کہ اللہ مجھ سے کیا چاہے گا، یا مجھ سے کیا مطالبہ کرے گا، لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ مجھے صرف ہدایت چاہیے۔ میں سچے دل سے ہدایت مانگ رہا ہوں۔”
بس یہی کافی ہے۔
نہ آپ کو کالج گریجویٹ ہونا ضروری ہے، نہ عربی زبان جاننا۔
یہ سب چیزیں ثانوی ہیں۔
جو چیز اصل میں درکار ہے، وہ اخلاص ہے —
سچے دل سے، پاک نیت کے ساتھ، صرف اللہ کے لیے، خالص ارادہ۔
لوگ کیا سوچتے ہیں، اُسے بھول جائیں۔
اللہ کے ساتھ اپنا تعلق سچا بنائیں۔
مجھے معلوم نہیں یہ بات لوگوں کے لیے اتنی مشکل کیوں ہے —
میرے لیے بھی مشکل ہے، قسم سے۔
اکثر مجھے لگتا ہے کہ میں روحانیت میں ابھی وہ ترقی نہیں کر پایا جو ہونی چاہیے تھی۔
اگرچہ میں نے مسلمان ہونے کے بعد بہت کوشش کی ہے،
لیکن آج بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو میں مزید کر سکتا ہوں —
اپنے آپ کو روحانیت میں مزید بہتر بنانے کے لیے۔
ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کا ایمان ہم سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ مسلمان ہیں، تو ہمیں تو شرم آتی ہے اپنے آپ کو مسلمان کہنے میں۔
آخر میں اُس مقام تک کیوں نہیں پہنچا؟
آپ ہی بتائیں، شاید میرے اخلاص میں کمی ہے۔
اگر میں نے زندگی میں کچھ سیکھا ہے، یا میری شخصیت میں کوئی بھی اچھائی ہے
تو وہ امام حسین (علیہ السلام) کے قدموں کی خاک کا صدقہ ہے۔
سچ کہوں تو، میں خود کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ اُن کے قدم چوم سکوں۔
انسان، چاہے جتنا بھی گرا ہوا ہو، ہمیشہ اوپر اٹھ سکتا ہے۔
ہمیشہ آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ کوئی نہ کوئی راہ پیدا کرتا ہے جس سے تم ترقی کر سکو۔
اور اس ترقی کی کنجی کیا ہے؟
اخلاص۔
اپنے ساتھ سچائی، اللہ کے سامنے سچائی — نیت کا خالص ہونا۔ یہی اصل راز ہے۔
اگر تمہارے اندر یہ اخلاص موجود ہے،
تو نہ تمہیں انٹرنیٹ کی ضرورت ہے،
نہ کتابوں کی۔
ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے پڑھنا لکھنا تک نہیں سیکھا —
لیکن روحانیت میں وہ اتنی بلندی تک پہنچے، کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت بار ایسے لوگوں سے ملاقات کی ہے جو کہتے ہیں،
"مجھے معلوم ہے کہ اسلام صحیح دین ہے، اور میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، یہ ایک خوبصورت دین ہے، لیکن میں شراب نوشی ترک نہیں کر سکتا، مجھے شراب سے محبت ہے۔"
لوگ نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے،
"ہمیں آپ کا دین پسند ہے، لیکن کیا آپ نماز کو ہٹا سکتے ہیں؟ کیا آپ سجدہ کو ہٹا سکتے ہیں؟"
تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دیتے،
"یہ میرا دین نہیں، یہ اللہ کا دین ہے، اور میں کچھ بدل نہیں سکتا۔"
لیکن یہی چیزیں ہیں جو لوگ چاہتے ہیں۔
تو بہت سے لوگ جو روحانی ترقی نہیں کر پاتے، درحقیقت وہ بزدل ہوتے ہیں۔
By urdu • استبصار کی داستانیں • 0 • Tags: Converts, Reborn, شیعه شدگان, علی اسمارت, مستبصرین