آرہا ہے کعبہ میں کائنات کا وہ شخص جو کائنات کی عقلوں میں آج تک نہیں آیا

 

تیرہ رجب ، مولائے کائینات حضرت علی علیہ السلام کا یوم ظہور مبارک

حضرت علی علیہ السّلام (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب علیہ السّلام اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی ۔

آپ کی شادی مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی ۔

حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تھیں۔

 

حضرت علی علیه السلام پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ  کی نگاه میں

ان الله لا یضیع اجر المحسنین-

ترجمہ: بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے

حضرت علی علیہ السلام کے  اسلام اور مسلمین کےلئے خدمات اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خدا وند منان نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضرت علی علیہ السلام کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ  کی زبان مبارک سے بھی آپ ؑکے فضائل بیان ہیں ۔ ذیل میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ  کی روشنی میں ترتیب سے، پہلے حضرت علی علیہ السلام کے وہ فضائل جو حضرتؑ کو صفت الہی سے متجلّی کرتے ہیں بیان کئے جائیں گے، پھر رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  سےمتعلق صفات بیان کی جائیں گی اور آخر میں حضرتؑ کے دیگر فضائل رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  کی زبانی بیان کیے جائیں گے۔

 

  • علی ؑ کا صفات الہی میں متجلّی ہونا:

کلام رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  میں وہ احادیث جو صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام  میں قرار دیتی ہیں ،درج ذیل ہیں۔

 

  • علی ؑ نور الہی:

حضرت علی ؑ کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں : (( سمعت رسول الله(ص) یقول لعلی ؑ خلقت انا و انت من نور الله تعالی ))  ترجمہ:میں (ابن عباس) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  کو علی ؑ سے فرماتے ہوئے سنا:میں اور تم(علیؑ) خداوند متعال کے نور سے  پیدا ہوئے ہیں۔

اس حدیث کے مطابق رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  اور امیر المؤمنینؑ دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔

 

  • علی ؑ انتخاب الہی:

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  اپنی  پیاری بیٹی سے حضرت علی ؑ کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:

((یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک))  ترجمہ:اے فاطمہ (س)کیا آپ(س) راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ (س)کے بابا(رسول اللہ) اور دوسرے آپ (س)کے شوہر علی ؑ ہیں!یعنی خداوند  متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ  اور دوسرے کو سید الاوصیاءؑ قرار دیا۔

 

  • علی ؑ محبوب الہی:

حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ  سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے (الطائر المشوی) بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے: ایک بار رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  کے سامنے رکھی گئی حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  نے خداوند  متعال سے یوں دعا فرمائی :  (( اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی))  ترجمہ: خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی  ۔ رسول کے خادم  انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  مشغول ہیں حضرت علی ؑ چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  نے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی ؑ کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔  اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔

مذکورہ حدیث معمولی اختلاف کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔

 

  • علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:

نبی مکرم اسلام ﷺ سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے: (( روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قالﷺ : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی  بن ابی طالب۔ ترجمہ: رسول اللہ (ص) سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ(ص) نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ حضرت(ص) نے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟ حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟ رسول (ص) نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالبؑ مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔

اس حدیث کے مطابق مولا علی علیہ السلام ہی خداوند کی مضبوط رسی اور مسلمانوں کے امام اور امیر المومنین ہیں۔

 

  • علیؑ تلوار الہی:

حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات  سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرتؑ کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے  کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: (( عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی(ص) ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته” یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب۔۔۔۔هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه۔۔۔۔)) ترجمہ: انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہ(ص) منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی ؑ کہاں ہے؟علی ؑ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول (ص)میں حاضر ہوں ۔ رسول(ص) نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول(ص) نے علیؑ کو اپنے سینے سے لگایا اور علی ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالبؑ ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے۔  اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم (ص) نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر  حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛  تاکہ آپ ؑ کی ولایت اور شان و منزلت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

 

  • علیؑ رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ کا جلوہ :

رسول رحمت (ص) نے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی ؑ کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔ذیل میں اس نوعیت کی احادیث بیان کی جا رہی  ہیں:

 

  • حضرت علیؑ ختم مرتب کے پہلا ساتھی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  حضرت علی ؑ کی شان میں یوں فرماتے ہیں:

یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة  ترجمہ: اے علیؑ تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی ؑ رسول رحمت ﷺ کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی ؑ کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔

 

  • حضرت علی ؑ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے دوست:

ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین ؑ کے متعلق سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ  نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں: (( عن عائشة قالت: قال رسول الله وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا  لی حبیبی فدعوا  له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا  لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا  له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه  افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه))

ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا  (جب احتضار کے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں (عائشہ) نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں(عائشہ) نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی ؑ کو ان کے لئے بلاؤ  خدا کی قسم حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  کی مرادعلیؑ کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ  نے علی ؑ کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی ؑ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ  کی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی  اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ   کا ہاتھ علی ؑ پر تھا۔

 

اور اسی طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ  علی ؑ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

(یا علی انت رفیقی فی الجنة)   ( اے علیؑ تم جنت میں میرے ہم نشین ہو)۔ عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ علیؑ سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  سے قریب ہیں۔

 

 علی ؑ نفس اور روح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ :

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:

((علی منی کنفسی  طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی))  ترجمہ: علی ؑمیرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے۔

اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  مولا علی ؑ کو اپنی  روح قرار دیتے ہیں:

(علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی)  ترجمہ: علی ابن ابی طالبؑ میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے۔ اسی طرح سرور کونین صلی اللہ علیہ و آلہ  علی ؑ کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔

((علی منی بمنزلة  راس من جسدی))  (علیؑ کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے)۔ دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی ؑ کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔

 

  • علی ؑ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے امین اور راز دان:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  کو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  دنیا والوں کے امین جبکہ علی ؑ ان کے  امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  کی زبانی پڑھتےہیں:

(( قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی))  ترجمہ:رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علیؑ کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں ۔

 

اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :

(روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب)  ترجمہ: سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا : ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول  اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  کا  امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔

 

  • رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے علم کے وارث:

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  نے مختلف احادیث میں حضرت علی ؑ کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  فرماتے ہیں:

((عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب))  ترجمہ:سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا: امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب ؑ ہے۔ انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی ؑ کے پا س تھا لہذا علیؑ ہی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  کے واقعی جانشین بن سکتے ہیں ۔

 

  • حضرت علی ؑ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے علمدار:

حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  فرماتےہیں:

((یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی))  ترجمہ:اے ابا برزۃ علیؑ روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔

 

  • حضرت علیؑ کے دیگر فضائل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی زبانی:

حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسولﷺ کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :

 

  • حضرت علی ؑ کو دیکھنا عبادت:

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  کی مشہور روایت ہے:(النظر الی علی عبادة) علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔

 

  • ذکر علیؑ عبادت:

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  علی ؑ کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں: ((ذکر علی عبادة)   ( علی ؑ کا ذکر کرنا عبادت ہے) ۔ جبکہ دوسری حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علیؑ سےمزین کریں:       ((عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب))  ترجمہ: جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالبؑ سے مزین کرو۔

 

  • علیؑ خیر البشر:

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  متعدد روایات میں علیؑ کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے:

(عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر)

ترجمہ: ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  نے فرمایا: علی ؑ خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے۔

 

  • علیؑ ایمان اور نفاق کا معیار:

نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ  حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے  کے متعلق یوں فرماتے ہیں:(علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق)

ترجمہ: حضرت علیؑ سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی ؑ سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علیؑ ایمان اور نفاق کو پرکھنے  کےلئے معیار ہیں۔

 

  • علی ؑ قرآن کے ساتھ:

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ  علیؑ کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:

((عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض)) ترجمہ:ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ  سے سنا ، حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  فرماتے ہیں :علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علیؑ کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے۔

 

  • علیؑ حق کے ساتھ:

سر ور کائناتصلی اللہ علیہ و آلہ   حضرت علیؑ کو حق قرار دیتے ہیں:

((قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة)) ترجمہ:رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ   نے فرمایا: علیؑ حق کے ساتھ ہے اور حق علیؑ کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے۔

 

  • علیؑ کعبے کی مانند:

رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ   نے حضرت علی ؑ کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے: (یا علی انت بمنزلة الکعبة)  ( اے علیؑ تو کعبہ کی مانند ہے) ۔

 

  • علی ؑ علم کے شہر کا دروازہ:

ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ   اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی ؑ کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے :

((عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب)) ترجمہ:ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ   نے فرمایا ہے: میںصلی اللہ علیہ و آلہ   علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے۔

 

  • علیؑ انبیاء کی صفات کا مجموعہ:

ہر نبی کی ایک خاص صفت  ہوتی ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ   کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی ؑ سارے انبیاءؑ کی صفات کے مالک ہیں:((قال رسول الله من اراد  ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران ( فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب)

ترجمہ: سرور انبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ   نے فرمایا: جو چاہے کہ آدمؑ کو اس کے علم میں اور ابراہیمؑ کو اس کے حلم میں (بردباری) نوحؑ کو اس کے فہم میں اور یحییؑ بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمرانؑ کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب ؑ کو دیکھے۔

 

  • حضرت علی ؑ اولیاء کے پیشوا:

سرور انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت علیؑ کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:

((عن انس بن مالک قال: قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً  فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی))

ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ   نے فرمایا: خداوند  متعال نے حضرت علی ؑ کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علیؑ ہدایت کا پرچم ،  ایمان کی نشانی ،  اولیاء کا پیشوا  اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ   کی احادیث سے فریقین ( شیعہ و اہلسنت )کی کتابیں بھری ہو ئی ہیں۔  کچھ احادیث نمونے کے طور پر پیش کی گئیں ؛  تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ   سے بیان شدہ  احادیث کن کن کتابوں میں دستیاب ہے خداوند  متعال ہمیں توفیق دے کہ حق کو سمجھ کر  اُس پر عمل پیرا ہوں۔(آمین)

 

والسلام علی من اتبع الهدی

…………………………………………………………………………………………………………………………………….

منابع :

1 ۔سورہ توبہ،آیہ 120۔

2۔الجوینی ،فرائد السمطین ،ج۱،ص۴۰۔

3۔النیشاپوری،حاکم،المستدرک علی الصحیحین ،ج۳،ص۱۴۰۔

4۔ ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

5  ۔  ترمذی، صحیح ترمذی، ج۱۳،ص۱۷۰؛ابن اثیر ،جامع الاصول،ج۹،ص۴۷۱۔

6  ۔  مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار ج۳۷، ص۳۰۸۔

7۔ طبری،محب ذخائر العقبی،ص۹۲۔

8۔ عیون اخبار الرضا،ج۱،ص۳۰۳۔

9  ۔حنفی،مناقب خوارزمی،ص۶۷۔ابن شہر آشوب،مناقب ، ج۱،ص۲۳۶۔

10۔ بغدادی، خطیب،تاریخ بغداد، ج۱۲،ص۲۶۸۔

11۔ صدوق ،الخصال،ص۴۹۶،امالی صدوق ص۱۴۹۔

12- بدخشی،مفتاح النجاشی،ص۴۳۔

13۔ کنز العمال ج۱۱،ص۶۳۸،نمبر۳۳۰۶۲۔

14۔بحار الانوار ج۳۶،ص۱۴۵۔

15۔دیلمی،فردوس الاخبار،ج۲،ص۴۰۳۔

16  ۔  شافعی،جوینی، فرائد السمطین،ج۱،ص۹۷؛کنز العمال ج۱۱،ص۶۱۴،نمبر ۳۲۹۷۸۔

17۔ عسقلانی ۔ابن حجر،لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔

18۔موحد،محمد ابراہیم،الامام علی فی الاحادیث النبویہ،ص۱۳۴۔

19۔  الصواعق المحرقہ،ج۲،ص۳۶۰۔

20۔ کنز العمال،ج۱۱،ص۶۰۱،نمبر،۳۲۸۹۴۔

21۔بحار الانوار ،ج۳۸،ص۱۹۹۔

22۔کنز العمال،ج۶،ص۱۵۹۔

23۔ الطبرانی،معجم الکبیر، ج۲۳،نمبر ۸۸۵۔

24۔حاکم نیشاپوری،مستدرک ،حاکم ،ج۳،ص۱۲۴۔

25۔بغدادی،خطیب،تاریخ بغداد،ج۱۴،ص۳۲۱۔

26۔اسد الغابۃ۔ج۴،ص۳۱۔

27۔حاکم نیشاپوری،مستدرک الصحیحین،ج۳،ص۱۲۶۔

28۔ابن کثیر، البدایۃ والنھایۃ،ج۷،ص۳۵۶۔

29۔عسقلانی،ابن حجر، لسان المیزان،ج۶،ص۲۳۷۔