25 شوال، حضرت امام جعفر صادق (ع) کا یوم شہادت امام زمان اور تمام مؤمنین کو تسلیت

 

امام جعفر صادق علیہ السلام کے مختصر حالات زندگی

نام: جعفر

کنیت: ابو عبداللہ

لقب: صادق

پدر بزگوار: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام (شیعوں کے پانچویں امام)

والدہ ماجدہ: ام فروہ ۔ امام علیہ السلام نے اپنی والدہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میری والدہ پرہیزگار ،با ایمان اور باکردار عورتوں میں تھےں۔

ولادت: 17/ربیع الاول 82 ھ

حیات: 65سال

مدت امامت: 34 سال 114ھ سے 148ھ تک

حاکمان وقت: ہشام بن عبد الملک ۔ولید بن یزید بن عبد الملک۔ یزید بن ولید۔ ابراہیم بن ولید ۔ مروان حمار۔ یہ خاندان نبو امیہ کے افراد۔ خاندان بنی عباس سے ۔ سفاح اور منصور دوانقی

فرزندان: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ۔اسماعیل، عبد اللہ ، محمد دیباج، اسحاق علی عریضی ، عباس ، ام فروہ ، اسمائ، اور فاطمہ، سات فرزند اور تین دختر۔

شہادت : 25 /شوال 148ھ

مدفن : جنت البقیع (مدینہ منورہ)

 

شخصیت کی عظمت

شیعہ عقیدہ کی رو سے امامت کسبی نہیں بلکہ وہبی وصف ہے یعنی اس کا تعین خود اﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام دوسرے آنے والے کی نشان دہی کرتا ہے اس عمل کو (نص) کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار، امام صادق(ع) کے بارے میں امام باقر (ع) کی بے شمار نصوص معتبر کتابوں میں ملتی ہیں( شیخ مفید ۔ الار شاد، بحار الانوار وغیرہ) ۔ امام جعفر ِ صادق کی عظیم شخصیت پر مسلسل اور انتھک کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئمہ علیہ السلام کی زندگی کا ہر قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کا ہر پہلو صحیفہ رشد و ہدایت ہے۔ ان حضرات نے اپنی زندگیاں اطاعت خدا اور رسول میں وقف کردی تھی اور وحی الہٰی اور تعلیمات نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ امام کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کی یہ قد آور شخصیت اپنے علم و عمل سے انسانیت کو کس قدر فیص بخشا ہے۔ اس کا اندازہ امام سے متعلق ان آراء سے ہوسکتا ہے ۔ جس کا اظہار مختلف مفکرین نے وقتاً فوقتاً کیا ہے اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔

امام جعفر صادق(ع) کے علمی فیوض

مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور آئمہ اہلبیت کی صورت میں پہنچا۔ باوجود یکہ ختمی مرتبت کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع نہ ماحول میسر ہو سکا ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔ کربلا کے مصائب کے بعد امام زین العبدین (ع) نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ کاملہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک شاہکار ہے۔ امام محمد باقر (ع) وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت کا اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام رضا نیشا پور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزار ہا افراد امام ؑ کی اواز سننے اور ارشاد کوکاغذ پر محفوظ کرنے سراپا مشتاق تھے ( احمد علی۔١) یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قیدو بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن امام صادق(ع) کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھاکہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کا پھیلا ؤ اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل کھلی مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے ۔ اس ضمن میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں۔ ” یہ تحریک امام صادق(ع) کی سر کردگی میں آگے بڑھی جن کی فکر و سیع ، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم کی دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکرکے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث ودرس میں صرف وہی افراد نہیں آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے حاضر ہوتے تھے۔ ”

دوسری صدی کی ابتداء یعنی ١٣٣ھ میں اموی خلافتوں کے خاتمہ پر عباسی دور شروع ہوا۔ یہ عبوری دور انتقال و تحویل اقتدار کی کشمکش کا وقفہ تھا، جس کو استعمال کرتے ہوئے امام صادق(ع) نے علوم و معارف اسلام کی ترویج و اشاعت کا اہم کام انجام دیا۔ یہ وہ دور تھاجب فتوحات اور بیرونی دنیا سے بڑھتے ہوئے روابط کے نتیجے میں رومی اور یونانی فکری اثرات عربستان میں مختلف فنون، علوم اور نظریاتی رجحانات کو متاثر کر رہے تھے جو اسلام کے خلاف ایک بیرونی یلغار ثابت ہو رہے۔ ( موجودہ عالمگیر یت یا گلوبلائزیشن کی ایک صورت میں) یہ ایک ایسی سرد جنگ تھی جس کے زہر یلے اثرات اور ہلاکت سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا صرف تلوار کی دھار اور اسلحہ کی طاقت سے ممکن نہ تھا کیونکہ علم و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ نسلی تعصب اور جہالت سے فکری اور علمی طوفان پر بندھ نہیں باندھ سکتے ( علامہ رضی۔٣) امام صادق ؑ واقف تھے کہ ایسی صورت میں سب سے بہتر حکمت عملی امت مسلمہ کو حصول علم و دانش کی طرف راغب کرنا ہے۔ ان فیوض کے اجراء کے لئے مدینے میں آپ کا گھر اور مسجد نبوی ایک بڑے علمی تحقیقی مرکز کی شکل اختیار کر گئے اراس حلقہئ تعلیم ، تدریس و تحقیق میں کم از کم چار ہزارطلباء مختلف شہروں اور ملکوں سے آکر زیر تعلیم تھے۔ شیخ طوسی کے بموجب یہ تعداد ٣١٩٧ مرد اور ١٢ خواتین پر مشتمل تھی۔ حسن بن علی بن زیاد جو شاگرد امام رضا (ع) تھے اور خود بھی اساتذہ حدیث میں شمار ہوتے تھے فرماتے تھے کہ ” میں نے مسجد کوفہ میں نوسو استاد حدیث کو دیکھا ہے جو امام صادق(ع) سے حدیث نقل کرتے تھے” صاحبان ِ اصول یعنی وہ لوگ جو اصل کتاب جس میں راوی اور معصوم کے درمیان صرف ایک واسطہ ہوتا ہے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر ارشادات قلم بند کرتے جاتے۔ اس طرح ایسی چار سوں کتابیں تیار ہوئیں جن کو” اصول اربعماۃ”(چار سو اصول) کہا جاتا ہے۔ محمد ابن یعقوب کلینی نے چار سو کتابوں کی مدد سے ” اصول کافی” مرتب کی جو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتاب ہے۔( محمد محمدی۔٨) یہ امام صادق(ع) کا فیض تھا آج ہمارا حدیثوں کا سرمایہ اتنا مستند اور مستحکم ہے۔

امام صادق(ع) کے علمی فیوض کے ضمن میں یہ عرض ہے کہ علم تو آئمہ کی میراث ہے جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سوال کرنے والے کو مطمئن کردیا۔ ان کے ذاتی تقدس اور دینی نظام میں ان کے مقام کے حوالے سے امام سے حصولِ فیوض کو زیادہ تر دینی معاملات تک محدود رکھا گیا۔ یہ ہماری بصیرت کی کوتاہی ہے۔ ورنہ علوم طبعیہ اور کونیہ (کائناتی معلومات) علوم میں بھی ہم اپنے آئمہ کو انتہائی مقام پر فائز دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں اس ضمن میں بے شمار اشارے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے امام جعفر صادق کو درس و تدریس ، بالمشافہ افہام و تفہیم ، مناظرون اور مواعظہ حسنہ کی صورت میں ایسا ما حول اور موقع میسر ہو اکہ علوم جدیدہ کے شعبہ میں بھی اپنے فیوض سے مستفید کر سکے بلکہ یہ کہنا بر محل ہوگا کہ اس سلسلہ میں بھی انہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔

شہادت امام

منصور دوانیقی بنی عباس کے ظالم و جابر اور ستمگر حکمرانوں میں سے تھا اور خلفائے بنی عباس میں بدترین اور رذیل شخص تھا۔

اس نے حکومت سبھالتے ہی امام صادق علیہ السلام پر زیادہ سے زیادہ سختیاں شروع کر دیں اور اپنے بدترین اور سخت جاسوس آپ پر مامور کردیئے۔ امام علیہ السلام کو اذیت دینے کے لئے ، آزار پہنچانے کے لئے اور قتل کرنے کے لئے بارہا اپنے پاس بلایا چونکہ تقدیر میں نہ تھا لہٰذا وہ اپنی نا پاک نیت میں کامیاب نہ ہو پاتا۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک بار منصور نے میرے والد کو طلب کیا تا کہ وہ انھیں قتل کرے ۔ اس کے لئے اس نے شمشیر اور بساط بھی آمادہ کر رکھی تھی۔ ربیع (جو منصور کے درباریوں میں سے تھا) کو اس بات کا حکم دیا کہ جب ”جعفر بن محمد” علیہ السلام میرے پاس آئیں اور میں ان سے گفتگو کرنے لگوں تو جس وقت میں ہاتھ کو ہاتھ پر ماروں اس وقت تم ان کی گردن اڑا دینا۔

امام علیہ السلام وارد ہوئے منصور کی نظر جیسے ہی امام پر پڑی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور امام کو خوش آمدید کہا ۔ اور اس بات کا اظہار کیا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ تا کہ آپ کے قرضوں کو چکا دوں۔ اس کے بعد خوش روئی سے امام کے اعزاء و اقارب کے حالات دریافت کرکے ۔ ربیع کی طرف رخ کرکے کہنے لگا تین روز بعد امام کو ان کے اعزا و اقارب کے پاس پہنچا دینا۔

آخر منصور امام کو برداشت نہ کرسکا جن کی امامت کا آواز اور رہبری کا شہرہ ملتِ اسلامیہ کے گوشہ گوشہ میں تھا۔

منصور نے شوال 148ھ میں امام کو زہر دے دیا جس کے سبب امام علیہ السلام نے 25شوال کو 65 برس کی عمر میں شہادت پائی .

آپ کے جسم اطہر کو قبرستان بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے چند فرامین:

  1. میں نے تمام مفید علم و دانش کو چار چیزوں میں پایا. ۱)۔اپنے پروردگا ر کی معرفت حاصل کرو ۔۲)۔ یہ جانو کہ خدا نے تمھارے ساتھ کیا کیا ہے اور کیا کیا نعمتیں دی ہیں۔۳)۔ یہ پہچانو کہ خدا کا تم سے مطالبہ کیا ہے ، تمھاری ذمہ داری کیا ہے ۔۴) یہ معلوم کرو کونسی چیز تمھیں تمھارے دین سے خارج کردے گی۔
  2. چار خصلتیں انبیاء کے اخلاق کی ہیں . ۱)۔ نیکی کرنا ۲)۔ سخاوت ۳) ۔ مصیبت پر صبر کرنا ۴) مومن کے حقوق کی رعایت کرنا۔
  3. تین آدمی تین جگہوں پر پہنچانے جاتے ہیں۔ حلیم اور برد بار غصہ کے وقت ، دلیر و شجاع جنگ کے وقت ، اور دوست و بھائی ضرورت کے وقت۔
  4. کوئی بندہ مومن اس وقت تک کمال ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس میں یہ تین خصلتیں نہ پائی جائیں. ۱) ۔ دین میں فہم اور بصیرت ۲) ۔ معیشت میں میانہ روی ۳)۔ مصیبتوں پر صبر
  5. مومن دو خوف کے درمیان ہے ۔الف )۔گزشتہ گناہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے ساتھ کیا کرے گا . ب)۔باقیماندہ عمر نہیں معلوم کہ اس میں کونسا گناہ اس سے سرزد ہوگا ۔ اور کس ہلاکت میں پڑے گا . وہ رات گزار کر صبح نہیں کرتا مگر خوف خدا و ترس کے عالم کے.ا ور دن کاٹ کر رات نہیں آتی مگر خوف و ہراس کے ساتھ ۔ کوئی چیز اس کی اصلاح نہیں کرسکتی مگر خوف خدا۔
  6. وہ انسان سعدتمند ہے جو تنہائی میں اپنے کو لوگوں سے بے نیاز اور خدا کیطرف جھکا ہوا پائے۔
  7. اگر کوئی شخص کسی برادر مومن کا دل خوش کرے تو خدا وندعالم اس کے لئے ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اس کی طرف سے عبادت کرتا ہے ،اور قبر کامونس،قیامت میں ثابت قدمی کا باعث ، منزل شفاعت میں شفیع اور جنت میں پہچانے میں رہبر ہوگا۔
  8. نیکی کا یہ ہے کہ اس میں جلدی کر و اور اسے کم سمجھواور چھپا کرکرو۔
  9. توبہ کرنے میں تاخیر کرنا اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے ۔
  10. چار چیزیںایسی ہیں جس کی کمی کو کثرت سمجھنا چاہئے ۔ ۱۔۱ۤگ،۲۔ دشمن ،۳۔فقیری ،۴۔مرض۔
  11. کسی کے ساتھ بیس دن رہنا عزیز داری کے مانند ہے ۔شیطان کے غلبہ سے بچنے کے لے لوگوں پر احسان کرو۔
  12. لڑکی رحمت ہے اور لڑکا نعمت خدا رحمت پرثواب دیتاہے اور نعمت پر سوال کرے گا ۔
  13. جو تمھیں عزت کی نگاہ سے دیکھے تو تم بھی اس کی عزت کرو اورجوتمھیں ذلیل سمجھے تم اس سے خودداری کرو۔
  14. جو دوسروں کی دولت کوللچائی ہوئی نگاہ سے دیکھے گا وہ ہمیشہ فقیر رہے گا۔