صادق آل محمد ،حضرت امام جعفر صادقؑ کی المناک شہادت کے موقع پر اُمت مسلمہ بلخصوص امام زمانہ عج کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں

 

امام جعفر صادق علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

قالَ الامامُ جَعْفَرُ بنُ محمّد الصّادقُ عليه السلام:  كمالُ الْمُؤْمِنِ فى ثَلاثِ خِصالٍ: الْفِقْهُ فى دينِهِ وَ الصَّبْرُ عَلَى النّائِبَةِ وَالتَّقْديرُ فِى الْمَعيشَةِ.

مؤمن کا کمال تین خصلتوں میں ہے: دین سے واقفیت، مشکلات میں صبر وتحمل، اور زندگی کے معاملات میں منصوبہ بندی اور حساب و کتاب کی پابندی۔ (أمالی طوسى : ج 2 ص 279)

امام جعفر صادق علیہ السلام کی مختصر سوانح حیات

ابوعبداللہ، جعفر بن محمد بن علی بن الحسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام معروف بہ صادق آل محمد شیعوں کے چھٹے امام ہیں، جو کہ اپنے والد امام محمد باقرعلیہ السلام کی شہادت کے بعد 7 ذی الحجہ سن 114 ھ ق کو آنحضرت کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پرفائز ہوۓ ۔

امام جعفرصادق (ع) جمعہ طلوع فجرکے وقت اوردوسرے قول کے مطابق منگل 17 ربیع الاول سن 80 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوۓ ۔

جعفر کے معنی نہر کے ہیں۔ گو یا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی کنیت ابو عبداللہ، ابو اسماعیل، ابو موسیٰ اور القاب صادق، فاضل، طاہر، اور منجی زیادہ مشہور ہیں۔

آپ کی مادر گرامی جناب اُمِ فروہ بنت ِ قاسم بن محمد بن ابو بکر تھیں، آپ اپنے زمانے کی خواتین میں بلند مقام رکھتی تھیں، اسی لیے امام جعفرصادق کا فرما ن ہے کہ میری والدہ با ایمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا،اچھے کام کیے اور اللہ اچھے کام کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔

آپ کے ٧ بیٹے، اسماعیل، عبداﷲ، موسیٰ( بن کاظم (ع)) اسحاق، محمد(الدیباج) ، عباس اور علی ، اور تین بیٹیاں ام فروہ، اسماء و فاطمہ تھیں۔

آپ کی دو ازواج مطہرات میں ایک فاطمہ بنت الحسین امام زین العابدین کی پوتی تھیں۔

روایات کے مطابق فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمرمیں ایک سوچودہ ہجری قمری کوعوام کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اورمنصب امامت پرفائزہوئے آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے۔

سن ایک سو چودہ سے ایک سوبتیس ہجری قمری تک اموی دورحکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسراقتدار تھے ۔

جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدارکی رسہ کشی جاری تھی جس کی بناپر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اورخاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا ۔

اسی دورمیں امام جعفرصادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اورایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کا ‌زمانہ علوم و فنون کی توسیع اوردوسری ملتوں کےعقائد و نظریات اورتہذیب وثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اورتہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔

اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اورعقائد و فلسفے دوسری ‌زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتاہے ۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔

آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اوراہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اورامام سے نقل نہیں کیں ۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن میں ہرمکتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں ۔

آپ کے ممتازشاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیاجا سکتاہے ۔

ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیداکیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو ‌سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں ۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں ۔

اہل سنت کے درمیان مشہورچاروں مکاتب فکرکے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کےشاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا” دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا ۔

آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہاہے : ” میں نے جعفرابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اورشخص نہیں دیکھا۔” ایک اورمقام پرامام ابوحنیفہ نے امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "لولا السنتان لھک نعمان” "اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا”

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی سیرت اوراخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھاہے ۔

آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اورمہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اورلوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے ۔

آپ فرماتے ہیں: اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرواوراپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔

 

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی ‌زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے ۔

  1. پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اوروالد امام محمد باقرعلیہ السلام کے زیرسایہ گزارا یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کرایک سو چودہ ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے ۔
  2. دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فا‏ئدہ اٹھایا ۔ اس دور میں آپ نے چارہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب شیعہ کو عروج پر پہنچایا ۔
  3. تیسرا دورامام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پرمشتمل ہے، اس دورمیں آپ پرعباسی خلیفہ منصوردوانیقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی ۔

عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا شروع شروع میں عباسیوں نے امام پر دباؤ نہیں ڈالا اور انہیں تنگ نہیں کیا لیکن عباسیوں نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد امویوں کی روش اپنالی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ امویوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔

امام صادق(ع) کے دورِ امامت میں بنی امیہ کے سلاطین میں ہشام بن عبدالملک، ولید بن یزید بن عبد الملک، یزید بن ولید، مروان حمار اور خاندان بنی عباس کے دو افراد ابو العباس السفاح اور منصور دوانیقی تھے۔

ان میں عبدالملک کے بیس سال کا عہد اور منصور دوانیقی کے دس سال شامل ہیں۔

منصوردوانیقی ایک خود سر اور ظالم حکمران تھا۔

منصور نے امام کو قتل کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ بالآخر اس کے حکم پر حاکم بن سلیمان نے آپ کو زہر دے دیا جس  بعض مورخین کے نزدیک ١٥ رجب ١٤٨ھ کو آپ کی شہادت واقع ہوئی، لیکن مشہور مورخین کے مطابق تاریخ شہادت ۲۵ شوال ١٤٨ھ ہے۔