عباس علمدار شہنشاہ وفا کی ولادت با سعادت مبارک

 

حضرت عباس علیہ السلام چند غیر معصوم افراد میں سے ہے جو معصومین علیہم السلام کی زبانی سراہا گیا ہے اور امام صادق علیہ السلام سے ایک خاص زیارتنامہ آپ کے نام روایت کی گئی ہے نیز زیارت ناحیہ مقدسہ امام زمانہ علیہ السلام میں بھی خصوصی طورپر آپ کی شان میں بلند و بالا توصیفات بیان کیا گیا ہے؛ یہ سب اس وجہ سے ہےکہ آپ (ع) ولایت کی گہرائیوں تک معرفت رکھتے تھے۔

حضرت عباسؑ کی عظمت کا ایک بہت بڑا سبب آپ کی امامؑ شناسی, ولایت کی معرفت اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے، حضرت امام صادقؑ حضرت عباسؑ کے زیارت نامے میں آپ کو خدا، رسول ﷺ و [ اپنے زمانے کے] آئمہ کے مطیع کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:

اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ سلام ہو آپ پر اے بندہ صالح ! اے اللہ، اس کے رسولﷺ، امیر المؤمنینؑ اور حسنؑ اور حسینؑ کے مطیع و فرمانبردار!

( کامل الزیارات،  ص 786 )

حضرت عباس علیہ السلام، مولا علی بن ابیطالب اور فاطمہ کلابیہ ام البنین علیہم السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔

حضرت عباس علیہ السلام ۴ شعبان کو پیدا ہوئے اور اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔

روایت ہےکہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھا۔ مولا علی ابن ابیطالب (ع) نے اپنے بھائی عقیل ابن ابیطالب کے مشورے سے جو انساب کے ماہر تھے، ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگارا! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کےلئے کربلا کے خونین معرکہ میں امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے۔ چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا، چار بیٹے امام کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا اور شہید ہوئے لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی۔ آپ نے والد گرامی سے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف بالاخص علم فقہ حاصل کئے۔

حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصوصا ً کربلا کےلئے ہوئی تھی۔

حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ” ایثار و وفاداری” ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اور سخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے۔

جنگ صفین حضرت علی علیہ السلام اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان 657ء میں ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب مولا بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے۔ اس موقع پر امیرالمومنین نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ہیں اور یہ خاندان ہاشم کے چاند ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ہاشم کہا جاتا ہے۔

واقعہ کربلا کے وقت عباس علمدار کی عمر تقریبا ً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قرار دیا۔ امام کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ، سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت، لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی۔ دشت کربلا میں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابا الفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ” چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پر فائز ہوگئے، آپ نے بڑا ہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپنا حق ادا کر گئے”۔

سنہ ۶۱ ہجری، ۱۰ محرم الحرام کو راہ خدا و رسول اور امام زمانہ کی اطاعت میں حضرت ابا الفضل العباس کا سر، بدن اطہر سے جدا، نیزہ پر لگایا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ ان کا روضہ اقدس، عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔ نہر فرات جو ان کے روضے سے 4 کچھ فاصلے پر تھا اب ان کی قبر مبارک کے اردگرد چکر لگاتا ہے۔

عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین

ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین

زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چین

صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)

ایثار کا امام وفا کا رسول ہے

خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے

شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر

ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر

آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر

قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر

اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے

اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے