صدیقہٴ کبری، مادر ائمه، جگر گوشه رسول ، زوجة علی بن ابی طالب،حضرت زهرا سلام الله علیها کی شهادت کی تاریخ پر هم امام زمانه (ع) اور تمام محبان اهل بیت علیهم السلام کو تسلیت عرض کرتے هیں.

 

حیاتِ حضرت فاطمہ زھرا (ع) پر اجمالی نظر

حضرت صدیقہ طاهره (س) کی عمر مبارک اٹھاره سال تھی آپ (س) کی ولادت باسعادت جمعہ کے دن ۲۰/ بیس جمادی الثانیہ کو بعثت کے پانچویں سال میں هوئی۔[1]

اور تین جمادی الثانیہ سنہ11/هجری کو سقیفہ بنی ساعده کی بنیاد رکھنے والوں کے ذریعہ شهید هوئیں ۔[2]

(آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں بھی چند اقوال موجود ہیں۔ شیعوں کے یہاں مشہور قول کی بنا پر آپ 3 جمادی‌ الثانی 11 ہجری قمری کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اس قول کی دلیل امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث ہے۔ دوسرے اقوال میں 13 ربیع‌ الثانی، 20 جمادی‌ الثانی اور 3 رمضان کو آپؑ کا یوم شہادت قرار دیا گیا ہے۔)

حضرت صدیقہ طاھرہ کے آٹھ القاب ذکر کئے گئے ھیں: راضیه، مرضیه، زهرا، بتول، عذرا، مباركه و طاهره۔[3] اور بعض روایتوں سے استفادہ ھوتا ھے کہ زكیه اور محدثه ٓبھی ان کے القاب میں سے ھیں اور کنیت ام ابیها ھے ۔[4]

اسلامی اعتبار سے انسان کی شخصیت و عظمت دو طریقہ سے بنتی هے ایک نسب کے ذریعہ، دوسرے ذاتی کمالات و فضائل کے ذریعہ انسان درجہ کمال تک پہنچتا ھے ۔

  • نسب و حسب کی عظمت و فضیلت:

نسبی شخصیت، عظمت اور فضیلت کو اسلام نے تسلیم کیا هے کہ اس میں مختلف عوامل و اسباب مؤثر هوتے هیں: موروثی سبب، جائز طریقہ سے غذا کا استعمال، ماحول کی تاثیر، همسر یعنی زوجہ و شوھر کی تاثیر اور نیک و صالح اولاد وغیره انسانت کی شخصیت سازی میں اهم نقش اور کردار ادا کرتے هیں ۔ حضرت زهرا سلام الله علیھا کو موروثی قانون کی نظر سے دیکھا جائے تو خاتم الانبیاء حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم جیسے خلق عظیم کے مالک آپ کے والد ماجد هیں، جن کے متعلق سعدی نے کہا هے: تمام انسانی مرتبے و بلندیوں کو اپنے کمالات کے ذریعہ طے کیا، تمام تاریکیاں و اندھیرے آپ کے جمالِ پُرنور کے ذریعہ چَھٹ گئے اور تمام اوصاف و خصائل اپنی خوبیوں کے ساتھ آپ میں موجود هیں آنحضرت اور ان کی آل پر درود و سلام بھیجو:

 

بلغ العـلى بكمـالـه                كشف الدجى بجماله‏

حسنت جميع خصاله             صـلـوا علـيه و آلـه‏

 

آپ کی والده ماجده حضرت خدیجہ کبریٰ جیسی عظیم خاتون هیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا هے کہ اسلام اس بزرگ هستی کا مرهون منّت هے، ایسی ماں جنہوں نے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کئے گئے محصور مسلمانوں کے تین سال تک اخراجات کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنے تمام مال و دولت کو اس راه میں خرچ کیا، وه ماں جنہوں نے کئی سال تک مکہ میں کمر شکن مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کیا، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کے شانہ به شانہ ره کر اسلام کی مدد کی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی همراهی کی بناپر آپ کے جسم مبارک پر پتھر مارے گئے، بے احترامی کی گئی، برا بھلا کہا گیا اور جیسے جیسے یہ اتفاقات اور مشکلیں بڑھتی رهیں آپ کے صبر و استقامت میں اضافہ هوتا چلا گیا ۔

قانون غذا کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مؤرخین نے لکھا هے: جب پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی خلقت کا ارادہ کیا، تو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کو حکم دیا کہ چالیس شب و روز غار حرا میں دینی عبادت میں مصروف رهیں ۔[5]

حضرت خدیجہ بھی اپنے گھر میں ره کر عبادتِ خدا میں مشغول رهیں اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا، اس کے بعد حکم ملا کہ اے محمد صلی الله علیہ و آله وسلم اب اپنے گھر میں واپس جاؤ، عالم ملکوت سے ان دونوں کے لئے غذا لائی گئی، اس کے بعد حضرت زهرا سلام الله علیھا کا نور حضرت خدیجہ کے اندر منتقل هوا ۔

ماحول کی تاثیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت زهرا سلام الله علیھا نے فداکار، عفو درگزر اور ثابت قدم رھنے والی ماں کے دامن اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم جیسے والد ماجد کی آغوش میں تربیت و پرورش پائی اس کے علاوه آپ کی زندگی بڑے پُرآشوب حالات، سختیوں اور مصائب میں گِھری هوئی تھی ۔ حضرت صدیقہ سلام الله علیھا نے شعب ابوطالب میں ان حوادث و مصائب میں بھی زندگی بسر کی هے جن کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں معاویہ کے لئے بیان کیا هے: "تم لوگوں نے همیں تین سال تک آفتاب کی دھوپ میں محصور و مقیّد رکھا تھا، اس طرح کہ همارے بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے انتقال کرگئے همارے بزرگ درخت کے پوست پر زندگی بسر کررهے تھے، بچوں اور عورتوں کے آه و نالہ اور فریاد کی آوازیں بلند تھیں …” واضح و روشن هے کہ جس بچی کی پرورش ایسے ماحول میں هوئی هو، خاص طور سے اگر اس کی تربیت کرنے والے رسول اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم هوں تو اس میں پائیداری، ثابت قدمی، استقامت، صبر و حوصلہ اور سعہ صدر بطور اتم و کامل موجود هوگا ۔

حضرت فاطمہ سلام الله علیھا شوهر اور اولاد صالح کے اعتبار سے بھی بڑی عظیم اور مافوق شخصیت کی مالک هیں، آپ (س) کے شوهر حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام هیں کہ جن کے بارے میں تین سو سے زیاده قرآن کریم کی آیتیں نازل هوئی هیں ۔[6]

آپ کی اولاد میں حسن، حسین، زینب و ام کلثوم علیھم السلام هیں کہ اگر یہ ذوات مقدّسہ نہ هوتیں تو اسلام مٹ جاتا اور امام حسین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق "و علیٰ الاسلام السلام” اسلام کا فاتحہ پڑھ لیا جاتا ۔[7]

 

  • انسانی فضائل و کمالات:

حضرت رھرا (ع) کو انسانی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ھے جس کے متعلّق رسول اکرم (ص) نے بارھا ارشاد فرمایا ھے:

 

"إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ” بیشک خدا نے تمہیں چن لیا ھے اور پاکیزہ بنادیا ھے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ھے ۔ [8]

اگر جناب فاطمہ زھرا (س) کے فضائل کے لئے سورہ کوثر کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ھوتا تو وھی ان کی فضیلت کے لئے کافی تھا کہ کہا جائے، خدا کے نزدیک تمام عالمین کی عورتوں سے افضل اور برتر ھیں ۔ ” إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ  إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ” (اے پیغمبر!) بے شک ھم نے آپ کو کوثر عطا کیا ھے، لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں، یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رھے گا ۔[9]

حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس عظیم خاتون کا نام هے جو اصول و قوانین اسلامی سے آگاه نیز اخلاقی اصول آداب سے آشنا تھیں، آپ قرآنی آیتوں اور ان کی تلاوت کی حلاوت کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور تفکّر و تدبّر سے مانوس تھیں، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی سیرت اور نورانی کلام کے ذریعہ پسندیده اخلاق و اطوار سے آگہی رکھتی تھیں اور بچپن هی سے تمام خواتین  و انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ تھیں، اصل اسلامی اخلاق و آداب کی اقدار ۔[10] کے متعلق کثیر معلومات اور معارفِ دین کے متعلّق مختلف اعتبار سے بہت عمیق و گہری نظر ۔[11] کی وجہ تمام جوانب و اطراف پر وسیع نظریہ کی حامل تھیں ۔ اس طرح کہ آپ کی سیرت و کلام گہربار میں دسیوں سبق آموز اور معرفت کے نکتے پائے جاتے هیں جو تہذیب و تربیت کے دلداده و شیفتہ لوگوں کے لئے قیمتی و جاودانی زادِ راه قرار پاتے ھیں اور قرار پائیں گے، هم ان میں سے بعض نورانی کلمات پر نظر ایک طائرانہ نظر ڈالتے هیں:

 

  • اجتماعی اخلاقیات:

سماج و معاشره کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت، ایک بیکراں سمندر کے مانند دکھائی دیتی هے، اس کی بزرگی و عظمت هرطرف جاذبِ نظر اور خیره کر دینے والی هے، لیکن سماجی و اجتماعی مناسبتوں اور لوگوں کی ایک دوسرے کی ضرورتیں اس سمندر کو دریاؤں، نہروں، جوئباروں اور تالاب و چشموں کی صورت میں بنا دیتی هے، جو انسانوں کی نشست و برخاست، آمد و رفت اور تعلّقات کو زیاده سے زیاده بڑھا دیتی هے اور جو چیز اس شیوه کو آبادی کے انبوه اور کثرت میں نسیم صبح، سلامتی، مٹھاس اور حلاوت سے همکنار کرتی هے وه اجتماعی اخلاقیات هیں ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں هے کہ جب آسمانِ عصمت سے بارش کے قطرے انسانوں کی  روحانی آغوش میں آئیں گے تو اس کی تاثیر بھی بہت بلند و بالا اور پاک و پاکیزه رهے گی ۔

خنده پیشانی یا هنس مکھ چہره اور خوش اخلاقی جس کو (خوش روئی) سے تعبیر کیا جاتا هے یہ بہت گرانقدر کیمیا شیئے کا نام هے جو مختلف انسانوں کے درمیان زندگی کے هر میدان میں ۔۔ هر سلیقہ، مذهب اور فرقہ کے افراد کے ساتھ ۔۔ نہایت درجہ کارآمد رها هے اور معصومین علیھم السلام کے کلام میں اس کی مسلسل تاکید کی گئی هے ۔

حضرت ختمی مرتبت (ص) کی بیٹی جناب فاطمہ زهرا (سلام الله علیها) نے اپنے مختصر نورانی کلام میں اس حقیقت کی بلندی کو اس طرح بیان کیا ھے: "بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصَاحِبِهِ الْجَنَّةَ وَ بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُعَانِدِ المُعَادِی يَقِي صَاحِبَهُ عَذَابَ النَّارِ، مومن سے خوش روئی و خندہ پیشانی سے پیش آنا جنّت کا باعث ھے اور جھگڑالو دشمن سے خوشی و خندہ پیشانی سے پیش آنا آتش جہنم سے نجات دلاتا ھے ۔[12]

 

  • گھریلوں اور ازدواجی اخلاقیات:

زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں بہت زیاده نشیب و فراز پائے جاتے هیں، اس خوشیاں اور دکھ درد، نالہ و شیوں بھی دیکھے جاتے هیں ۔ عورت و مرد کی بصیرت، باریک بیں نگاهیں اور دونوں کے اغراض و مقاصد سختیوں کو آسان اور ناهمواریوں کو هموار بنا دیتے هیں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے هر ایک حادثوں کا استقبال کرتے هیں اور بھرپور سعی و کوشش کے ذریعہ زندگی میں اطمینان و سکون، صدق و صفا، صمیمیت اور مهربانی قائم رکھتے هیں ۔

لوگوں کے ساتھ انبیاء (ع) کے منطقی، دلسوزی اور مهربانی کے تعلّقات، رسولوں و رهنماؤں کے حُسن خُلق اور احسان کے کیمیائی نقش و کردار کو فکری تهذیب و ثقافت کی تجلّی یعنی "انبیاء (ع) کے اخلاق کے آئینہ” میں بیان کیا گیا هے۔

حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس میدان میں ایک کامل اسوہ و نمونہ هیں وه عھد طفولیّت سے مشکلوں و سختیوں میں رهی هیں، شعب ابوطالب میں تین سال کی سختیاں اور کفر و نفاق کے سرداروں سے اتنا سخت مقابلہ جو بڑے سے بڑے بہادورں کے پتہ کو پانی کردیتا تھا مگر خدا پر ایمان و عشق کی قوّت نے نوجوانوں اور جوانوں کو اتنی قوت عطا کی تھی کہ اپنی پاک طینت طبیعت اور روحانی طاقت سے ایک ایک کر کے تمام مشکلوں پر فتح و غلبہ حاصل کرلیا۔ اور جب شوهر کے گھر میں قدم رکھتی هیں تو سختیوں سے نمٹنے کے ایک نئے معرکہ کا آغاز هوتا هے اس وقت آپ (س) کی "شوهرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات” کھل کر سامنے آتے هیں ۔ ایسا نہیں هے کہ صرف چین و سکون، رفاه، خوشی اور امکانات کی فراوانی میں اپنی زندگی اور شوهر سے رضا و خوشنودی کا اظهار کریں!!۔ ایک دن امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا سے کھانا طلب کیا تاکہ ابھی بھوک کو برطرف کرسکیں، جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے جواب دیا: میں اس خدا کی قسم کھاتی هوں کہ جس نے میرے والد کو نبوّت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا هے، دو دن سے گھر میں وافی مقدار میں غذا نہیں هے اور جو کچھ غذا تھی وه آپ (ع) اور اپنے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) کو دے دیا اور میں نے تھوڑی سی غذا سے بھی استفاده نہیں کیا هے۔ امام علیہ السلام نے بڑی حسرت سے فرمایا: اے فاطمہ (س)! آخر مجھ سے کیوں نہیں بتایا کہ میں غذا فراهم کرنے کے لئے جاتا؟ جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے عرض کیا:

اے ابوالحسن (ع)! میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کرتی هوں کہ جس چیز پر آپ کی توانائی نہیں هے میں اس چیز کی درخواست کروں ۔[13]

 

  • سیاسی اخلاقیات:

حضرت زهرا سلام الله علیھا کے سیاسی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے "امام اور حجت خدا کا دفاع”، "امامت و رهبری امام علی علیہ السلام کی کامل پیروی اور فدک کے متعلّق مختلف میدان میں مبارزه”، اور "جنگ و جهاد کے بندوبست میں خوشی و دلسوزی سے حاضر رهنا” وغیره اور آخرکار اس صحیفہ کا آخری صفحہ خاتون جنّت کے خون کی سرخی سے رنگین هوگیا، اور حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی شهامت و شجاعت کی نشانی همیشہ کےلئے میدان شهادت میں ثبت هو گئی ۔ سب سے پہلے آپ (س) اپنے غصب شده حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی مختلف آیتوں سے دلیلیں قائم کیں، جس کے نتیجہ میں خلیفہ اول فدک کو واپس کرنے کے لئے تیار هوگیا تھا۔[14]

جب اپنے زمانے کے امام حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کلام کر رهی تھیں تو  آپ کی عمیق نظر اور بصیرت مخالفوں کے تمام حیلوں کا نظاره کر رهی تھیں اور دشمن کے کردار کو مختلف میدانوں میں پوشیده اور ظاهری طورپر دیکھ رهی تھیں اسی لئے امامت کے مقام و مرتبہ کو سماج کے سیاسی میدان میں خوب اچھے انداز میں بیان کررھی تھیں، پہلے تو کوتاه فکروں اور ساده لوح انسانوں کے سامنے مسئلہ امامت بڑے روشن طریقہ سے پیش کیا۔ اس کے آغاز میں اهل بیت علیھم السلام کی امامت کو "اتحاد اور تفرقہ سے امان کا سبب۔[15] ” بتایا، اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو ” ائمہ معصومین علیھم السلام میں سب سے بزرگ” هونے کا لقب دیا ۔[16] خلافت کے غاصبوں کے سامنے اپنے سیاسی کلام میں فرمایا: ” قرآن میں حکمِ خدا اور قرآن کریم کی تفسیر و تاویل کے متعلق پیغمبراسلام صلی الله علیہ و آله وسلم کی سنت اور تاکید کے برخلاف امامت کو غصب کرکے دوسروں کے سپرد کردیا هے” ۔[17]

 

  • اقتصادی اخلاقیات:

غربت و مالداری،سخاوت و ایثار، امتحانات کے مختلف مراحل و حالات اور مشترک زندگی کے نشیب و فراز میں ھوا کرتے هیں، جو کبھی هماری زندگی کے آغاز سے ساتھ هوا کرتے هیں اور کبھی کچھ  مختلف حالات میں همارے ایمان کے پَرکھنے اور مذهبی عقائد کے امتحان کا سبب هوا کرتے هیں، عورت و مرد کے "اقتصادی اخلاقیات” زندگی کے سنگلاخ میدانوں میں کامیابی کے بہترین اسلحے هوتے ھیں، اس طرح سے کہ "مالداری اور فقر و ناداری” ان کی رفتار و گفتار میں کسی طرح  کا تغیّر اور اس میں رَخنہ نہیں ڈال سکتے هیں اور انہیں مختلف میدان میں پاک و پاکیزه اور صاف و شفاف کا مالک بنائے رکھتے هیں ۔

شادی کی رات میں نیا اور بہترین لباس ۔۔ مالداری کے زمانے ۔۔ میں سائل کو دینا اور فقر و تنگدستی کے زمانے میں حاجتمندوں، غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایثار کرنا، فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے اقتصادی اخلاقیات و اوصاف کے بحر بیکراں کا ایک چھوٹا سا نمونہ هے، جو همارے لئے نعمتوں کے وفور و سرشار هونے یا تنگدستی و فقر کے زمانے کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل بنا رهے گا ۔

رسول اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم ایک دن جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا: میری بیٹی! تم کیسی هو؟ اور کس طرح زندگی بسر کررهی هو ؟۔

انہوں نے جواب دیا: بھوک نے مجھے نڈھال کردیا هے، هر وقت کمزوری میں اضافہ هوتا جارها هے، همارے پاس غذا نہیں هے کہ جس سے بھوک کو برطرف کروں ۔[18]

 

  • خلوص:

هر ملاوٹ سے عمل کو صاف ستھرا بنائے رکھنے کا نام هے۔[19] اور هر طرح کی آلودگی سے اپنے کاموں کو پاک و پاکیزه بنانا هے، اس طرح کہ ان کاموں میں غیر خدا کے لئے کوئی نصیب نہ هو۔[20] اور دنیا و آخرت میں اس عمل سے اجر و ثواب کو بھی طلب نہ کیا جائے۔[21]

دوسرے الفاظ میں یہ بیان کیا جائے کہ انسان اپنے عمل میں دوسروں کی تعریف و مدح کی امید نہ رکھتا هو اور عمل کو خواهشاتِ نفسانی سے صاف و شفاف رکھے اسی کا نام اخلاص هے ۔[22] یعنی جو انسان ظاهر و باطن اور تنہائی و مجمع میں ایک جیسا دکھائی دیتا هے کہ گویا کوئی بھی همارے اعمال کو دیکھنے والا نہیں تھا اور صرف ذات خدائے متعال ھے جو همارے اعمال، رفتار و کردار پر شاهد هے اور بس ۔

خلوص کبھی کردار و عمل میں دیکھا جاتا هے ۔۔ جس کا مطلب اچھے عمل کو انجام دینا، برے سے دوری اور حق کو اپنانا اور باطل سے دوری هے، اور کبھی نیت میں میں اس کی تفسیر هوتی هے ۔۔ جس کا مطلب یہ هوا کہ جهنم کے خوف اور بہشتت کی لالچ سے بلند هوکر مرضی و خوشنودی پروردگار کی راه میں قدم اٹھایا جائے ۔ اور دین میں اخلاص اس وقت جانا جاتا هے کہ جب آئین و ایمان میں تمام احکام و قوانین کے متعلق ھر طرح کے تعصب اور جانب داری سے بیزاری هو ۔[23]

جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اخلاص کے اوج و بلندی پر تھیں، ان کی یہ ممتاز حیثیت اصولِ عقائد پر ایمان، دینی اعتقادات سے متعلق دیرینہ لگاؤ اور فراوان عبادت تھی ۔

ایک دن رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم) نے حضرت فاطمہ زهرا (سلام الله علیها) کی طرف رخ کرکے فرمایا: "اے بیٹی! ابھی میرے پاس جبرئیل موجود ھیں اور پروردگار کی طرف سے پیغام لے کر آئے ھیں کہ تم جو کچھ درخواست کرو گی وہ پوری ھوگی، بتاؤ تم کو کیا چاھئے ؟”۔

جناب فاطمه (سلام الله علیها) نے جواب دیا: "شَغَلَنی عَنْ مَسأَلته لَذَّة خِدْمَته، لا حاجَة لی غیر النَّظر اِلی وَجْهِهِ الْکَریم، حضرت حق تعالیٰ کی خدمت میں جو لذّت مجھے حاصل ھوتی ھے وہ مجھ کو ھر خواھش سے باز رکھتی ھے، اور مجھے اس کے علاوہ کوئی حاجت نہیں ھے کہ میں ھمیشہ جمالِ پروردگار کی ناظر رھوں ۔[24]

اس طرح کی روشن و شفاف بصیرت باعث بنی کہ مختصر نورانی کلام میں خلوص کے بارے میں معرفت کی بلندی کو بیان کریں:

” مَنْ أَصْعَدَ إِلَى اللَّهِ خَالِصَ عِبَادَتِهِ أَهْبَطَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ أَفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ، جو انسان اپنی خالصانہ عبادت کو بارگاہِ خداوندی میں بھیجے گا، پروردگار بھی اپنی بہترین مصلحت کو اس کی طرف نازل کرے گا۔ [25]

آپ ایک جگہ عبادت کے متعلّق فرماتی هیں: ” الله نے روزه کو دل کی دنیا میں اخلاص کے ثابت قدم و برقرار رکھنے کا ذریعہ قرار دیا هے”۔[26]

حسین بن روح کہتے هیں: فاطمہ زهرا سلام الله علیھا میں دو بڑی اهم خصوصیت موجود تھیں ۔

پہلی خصوصیت یہ کہ وه رسول خدا صلی الله علیہ وآله وسلم کی وارث تھیں، دوسری خصوصیت یہ هے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کی نسلِ پاک ان کی ذرّیت طاھرہ سے هے۔ خداوند عالم نے انھیں ان اوصاف کا حامل صرف اس لئے قرار دیا هے کیونکہ "فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی نیت میں خلوص تھا "۔[27]

 

حضرت فاطمہ زهرا (س) کی بیماری اور شهادت کے اسباب:

اس تلخ واقعہ کے بعد جناب زهرا (س) کی تاکید تھی کہ ان کی جسمانی شرائط اور روحی کیفیت کو مخفی رکھا جائے اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی رازداری کے باوجود  آخرکار سیده نساء العالمین کی بیماری کی خبر مدینہ کے اندر پھیل گئی اور تمام لوگ ان کے حالات و شرائط سے مطّلع هوگئے ۔ اس بات کی یادآوری ضروری هے کہ جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس سخت ترین بیماری سے اتنا شاکی نہیں تھیں جو لاعلاج حد تک پہنچ گئی تھی، بلکہ جو چیز تکلیف دے رهی تھی اور ان کے جسم اقدس کو مسلسل صدمہ پہنچا رهی تھی، وه رنج و غم اور مصائب کی موجیں تھیں جو هر ورز بڑھتی جارهی تھیں اور یہ ایسی تکلیفیں و اذیتیں تھیں جو آپ کے بیت الشرف پر حملہ سے زخمی هونے کے رنج و غم میں اضافہ کا سبب بتنی چلی جارهی تھیں اور سیده نساء عالمین کو شهادت کی طرف لے جاری تھیں۔

ان تکلیفوں اور اذیتوں کے ساتھ ساتھ والد ماجد کا فراق اور ان پر گریہ و زاری بھی انہیں اسباب میں تھا جو ان کی بیماری کو بڑھانے اور اس خورشید جہان افروز کے وجود کی شادابی کو زائل کرتا جارها تھا، اور ظلم و ستم، اذیتیں، سختیاں، بعض مسلمانوں کے ناجواں مردانہ برتاؤ، سیاسی نظام کا پچھلی حالت میں تبدیل هونا اور کاموں میں دگرگونی اور اوضاع و شرائط کا دور جاهلیت و پسماندگی کی طرف جانے کو بھی ان عوامل میں شمار کرنا چاهئے جو هر وقت اور لمحہ بہ لمحہ حضرت (س) کے رنج و غم اور تکلیف کو بڑھا رهے تھے اور سیده نساء العالمین کو روز بروز دارفانی سے داربقا کی طرف لے جارهے تھے ۔

بیت الشرف پر خلافت کی غاصبوں کے حملہ میں فاطمہ سلام الله علیھا اس طرح در و دیوار کے درمیان دب گئیں کہ آپ کے وجود نازنیں پر زخموں کے علاوه محسن بھی شهید هوگئے اور ظلم و ستم کے تازیانے جسم اقدس پر لگائے گئے جس سے آپ کا جسم زخمی هوگیا، خون بہنے لگا، بڑا گہرا نشان جسمِ اقدس پر پڑا رها اور دوسری شدید ضربیں جسم نازنین پر وارد هوئیں جن سے جسم و جان اور ملکوتی روح کو بڑا صدمہ اور رنج هوا ۔

هاں یہ تمام چیزیں اور دردناک و جانکاه حوادث نے مل کر بستر بیماری پر پہنچا دیا اور اپنے پدر بزرگوار کے پاس پہنچ گئیں ۔

حضرت امام حسن مجتبىٰ (علیه‏السلام) نے معاویہ کی موجودگی میں مناظرہ کرتے ھوئے مغیرة بن شعبه کو خطاب کرکے کہا: "وَ أَنْتَ الَّذِي ضَرَبْتَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلى اللَّه علیه و آله) حَتَّى أَدْمَيْتَهَا وَ أَلْقَتْ مَا فِي بَطْنِهَا…، تم نے میری ماں، فَاطِمَہ بِنْت رَسُول اللَّه (صلى اللَّه علیه و آله) کو مارا اور مجروح کیا یہاں تک کہ ان کا بچہ ساقط ھوگیا …”۔[28]

حضرت امام صادق(علیه‏السلام) فاطمه زھرا (سلام الله علیها) کی بیماری اور شہادت کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

"و كان سبب وفاتها ان قنفذا مولى الرجل لكزها بنعل السیف بامره فاسقطت محسنا، و مرضت من ذلك مرضا شدیدا؛ حضرت فاطمہ زھرا (سلام الله علیها) کی شہادت کا سبب یہ تھا کہ (خلیفہ دوم کے غلام) قنفذ نے قبضہ شمشیر سے اس کے حکم سے حضرت زھرا کو مارا، ان کے بچہ کو مار ڈالا اور اسی وجہ سے شدید بیمار ھوگئیں ۔ [29]

 

حضرت فاطمہ زهرا (س) کی شهادت کی کیفیت:

  1. ام سلمہ سے فرمایا: میرے لئے پانی مهیا کرو تاکہ میں اس سے غسل کروں، ام سلمہ پانی لائیں، انہوں نے غسل کیا اور پاک و پاکیزه لباس پہنا، حکم دیا کہ میرے بستر کو کمرے کے بیچ میں بچھادو، اور رو بقبلہ داهنی کروٹ سوئیں اور اپنے داهنے کو سر کے نیچے رکھا ۔[30]
  2. دوسری روایت میں آیاهے: حضرت (س) نے اسماء سے فرمایا: میرے لئے پانی مهیّا کرو، اس کے بعد غسل کیا، پھر فرمایا: میرے نئے کپڑے مجھے دے دو، ان کو پہن کر فرمایا: میرے والد کا بچا هوا حنوط فلاں جگہ ھے وہ میرے لئے لے آؤ، میرے سر کے نیچے رکھ دو، مجھے تنہا چھوڑ دو اور یہاں سے باهر چلی جاؤ، میں اپنے پروردگار سے مناجات کرنا چاهتی هوں، کچھ دیر مجھے رهنے دینا، اس کے بعد آواز دینا اگر جواب دیا تو ٹھیک هے اور اگر جواب نہ دیا تو جان لینا کہ میں اپنے پدر بزرگوار کی طرف (یا پروردگار کی طرف) چلی گئی هوں ۔اسماء نے تھوڑی دیر کے لئے صدیقہ طاهره (س) کو تنہا چھوڑ دیا، اس کے بعد آواز دی تو کوئی جواب نہیں آیا، دوباره آواز دی، اے محمد مصطفی کی بیٹی، اے خلق عظیم کے مالک کی بیٹی، اے سب سے بہترین ذات گرامی کی بیٹی، جس نے زمین کے سنگریزوں پر قدم رکھا۔ اے اس ذات گرامی کی بیٹی کہ جس کے اور پروردگار کے درمیان دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ ره گیا تھا ۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا تو چہرہ انور سے کپڑے کو هٹا کر دیکھا، معلوم هوا دنیا سے رخصت هوگئی هیں، اپنے کو گرادیا اور رونے لگیں، ان کو بوسہ دینے لگیں اور کہا: اے فاطمہ (س) جب اپنے بابا رسول خدا صلی الله علیہ وآله وسلم کے پاس جانا تو اسماء بنت عمیس کا سلام حضرت (ص) کو پہنچا دینا ۔ اس کے بعد اپنے گریبان کو چاک کیا اور کمره سے باهر آگئیں، تھوڑی دیرے کے بعد حسنین علیھما السلام آگئے اور پوچھا: اے اسماء هماری مادر گرامی کہاں هیں؟ وه خاموش تھیں اور کوئی جواب نہیں دیا، دونوں فرزند کمره میں داخل هوگئے، دیکھا کہ ماں لیٹی هوئی هیں، امام حسین علیہ السلام نے هلایا تو معلوم هوا روح جنّت کو پرواز کرگئی هے، فرمایا: اے بھائی خدا آپ کو ماں کے غم میں صبر عنایت کرے ۔حسن علیہ السلام نے اپنے کو ماں کے اوپر گرادیا، کبھی بوسہ دیتے اور کہتے: اے امّاں هم سے بات کریں اس پہلے کہ میرے جسم سے روح نکل جائے، حسین علیہ السلام نے آگے بڑھ کر پیروں کا بوسہ لیا اور کہا: اے امّاں آپ کا بیٹا حسین (ع) هے آپ مجھ سے بات کریں اس سے پہلے کہ میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے هوجائے اور مر جاؤں ۔اسماء نے حسنین علیھما السلام سے کہا: اے رسول خدا صلی الله علیہ وآله وسلم کے شہزادو! اپنے والد ماجد علی علیہ السلام کے پاس جاکر اپنی ماں کی شهادت کی خبر دے دو، وه دونوں بیت الشرف سے باهر نکلے اور آواز دے رهے تھے یا محمداه، یا احمداه، آج هماری مادر گرامی دنیا سے رخصت هوگئیں اور آپ کی رحلت کا غم تازه هوگیا هے، اس کے بعد دونوں شهزادوں نے مسجد میں جاکر حضرت علی علیہ السلام کو شهادت کی خبر دی، جب امام  علیہ السلام نے خبر شهادت سنی تو کہا: اے بنت محمد (ص)! میں کس کو تعزیت دوں، تم همیشہ مجھے تسلّی دیتی تھیں اب تمهارے بعد کو مجھے تسلّی دے گا ۔

 

…………………………………………………

(1) كلينى، ابو جعفر، محمد بن يعقوب، الكافي (ط – الإسلامية)، 8 جلد، دار الكتب الإسلامية، تهران – ايران، چهارم، 1407 ھجری قمری۔

(2) دلائل الامة طبري شيعي نے امام صادق عليه السلام سے نقل كیا ھے ۔

(3) مناقب ج 3، ص 133 و 133؛ بحار الانوار، ج43، ص16۔

(4) مناقب، ج 3، ص 133 و 133؛ بحار الانوار، ج43، ص16۔

(5) بحار الانوار، ج 6، بيت الاحزان محدث قمي (ره)، ص ۵ ۔

(6) خطيب بغدادي نے اپنی تاريخ میں، ج 6 ص 221 و ابن حجر نے صواعق میں، ص 76، شبلنجي نے نور الابصار میں، ص 73، ابن عسكر نے ابن عباس سے نقل کیا ھے: كتاب خداوند متعال میں کسی کی فضلیت میں اتنی آیتیں نازل نہیں ھوئی ھیں جتنی علی ابن ابیطالب (ع) کے لے نازل ھوئی ھیں ۔

(7) مقتل خوارزمي، ج 1، ص 184؛ لهوف، ص 20۔

(8) مناقب ابن شهر آشوب، ج 3۔

(9) سوره مبارکه کوثر ۔

(10) سوره مبارکه نور، آیات27 و 28۔

(11) سوره مبارکه بقره، آیه شریفه 77 و سوره مبارکه مریم، آیات شریفه 27 و 28۔

(12) بحار الانوار، علامه مجلسی، ج72، ص401 و ج7۵، ص401؛ کتاب عوالم، ج11، ص628؛ المستدرک، ج2، ص37۵، ح3۔

(13) مناقب ابن شهر آشوب، ج2، ص26؛ کتاب عوالم، ج11، ص1۵8؛ ریاحین الشریعه، ج1، ص193۔

(14) نهج الحیاة، ص239 تا 267۔

(15) تفسیر الامام العسکری، ص330؛ تفسیر البرهان، ج3، ص24۵؛ بحارالانوار، ج23، ص2۵9۔

(16) امالی صدوق، ص47۵؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج3، ص340؛ اختصاص مفید، ص31۔

(17) کتاب عوالم، ج11، ص478 و 60۵؛ ریاحین الشریعه، ج2، ص40۔

(18) مناقب ابن شهر آشوب، ج3، ص323؛ حلیة الاولیاء ابونعیم اصفهانی، ج2، ص42۔

(19) منازل السائلین، ص31، (باب اخلاق)؛ تفسیر الکبیر، ج16، ص127، ج19، ص146 و ج23، ص318 و 319 و 320۔

(20) اربعین حدیث شیخ بهایی، ص1۵9، ح37۔

(21) اربعین حدیث، امام خمینی (ره)، ح20، ص321 تا 333۔

(22) میزان الحکمه، ج3، (باب اخلاص)، بحوالہ: تفسیر کشف الاسرار، ج1، ص388 و 327 و ج 2، ص722 و ج 8، ص386 و ج 10، ص۵74۔

(23) چشمه در بستر، ص202؛ رک: تفسیر الکبیر فخر، ج11، ص42؛ ج26، ص239 و ج 32، ص4۵۔

(24) اربعین حدیث، امام خمینی(ره)، ص333، نک: تفسیر الکشاف، ج2، ص7۵1؛ تفسیر کشف الاسرار؛ ج1، ص322 و 327؛ ریاحین الشریعه، ج1، ص10۵؛ نهج الحیاة، ص99، نک: تفسیر مجمع البیان، ج1، ص409 و ج 2، ص6۵0۔

(25) عوالم، ج11، ص623؛ بحارالانوار، ج67، ص249 و ج 70، ص249 و ج 71، ص184۔

خطبه فاطمه زهرا (س) در مسجد النبی(ص)، رک: تفسیر المنیر، ج8، ص126 و ج 11، ص283 و ج 16، ص4۵ و ج 30، ص346۔

(26) خطبه فاطمه زهرا (س) در مسجد النبی(ص)، رک: تفسیر المنیر، ج8، ص126 و ج 11، ص283 و ج 16، ص4۵ و ج 30، ص346۔

(27) حوالہ سابق، ص37، نک: تفسیر نمونه، ج9، ص377 و ج 12، ص۵78 و ج 2۵، ص3۵4 و 3۵6 و ج 27، ص214۔

(28) احتجاج طبرسى، ج 1، ص 414؛ بحار الانوار، ج 43، ص‏ص 197، ح 28؛ سفينة، ج 2، ص 339۔

(29) عوالم، ج 11، ص ۵04؛ بحار، ج 43، ص 170، ح 11۔

(30) بلادى بحرانى «وفات فاطمه الزهراء» 77