عید فطر عظیم اسلامی تہوار ہے

 

رمضان کا مہینہ اپنی تمام تر عظمتوں، کرامتوں اور رحمت کی فضاؤں کے ساتھ تمام ہوا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس مہینے میں دنوں کے روزوں، دعا و توسل، ذکر و عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے اپنے قلوب کو زیادہ منور اور خدا سے زیادہ قریب کر لیا۔

عید فطر عظیم اسلامی تہوار ہے۔ عالم اسلام، عید فطر کے دن حقیقی معنی میں عید مناتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو امت مسلمہ کے لیے اسلام چاہتا ہے۔

جعلہ اللہ لکم عیدًا و جعلکم لہ اھلًا، آج کے دن کو خداوند متعال نے امت مسلمہ کے لیے عید اور مسلمانوں کو اس عید کا اہل قرار دیا ہے۔

ہمیں اس الہی تحفے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اپنے دلوں میں معرفت اور توبہ و استغفار کے نور کو راستہ دے کر حقیقی معنی میں ذاتی فائدہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اگر معرفت و عشق الہی کی دنیا کی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی ہمارے دلوں پر کھل جائے اور ہمارا وجود نورانی ہو جائے تو بیرونی دنیا کی بہت سی تاریکیاں اور مشکلات اپنے آپ دور ہو جائیں گی، کیونکہ یہ انسانوں کا دل ہے جو تمام خوبیوں اور برائیوں کا سرچشمہ ہے۔

عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے:

عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے، بحمد اللہ ہم نے رمضان کا مہینہ جو صوم و صلاۃ کا مہینہ تھا، خیر و عافیت سے گزار دیا اور خداوند متعال نے دعا و مناجات اور ذکر و عبادت کے ساتھ ہم لوگوں کو روزے کی ادائیگی اور اللہ تعالی کے سامنے توسل اور خضوع و خشوع کی توفیق عطا کی۔ آج وہ دن ہے جب ان شاء اللہ خداوند متعال ہم لوگوں کو جزا عنایت کرے گا۔ شاید خداوند متعال کی ایک سب سے بڑی جزا یہ ہو کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اگلے ماہ رمضان تک رحمت الہی کے وسیلے کو اپنے لیے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ مبارک رمضان کے درس پر پورے سال کاربند رہیں، یہ ہو گی خداوند عالم کی ایک سب سے بڑی جزا کہ جس نے ہم سب کو اس طرح کی توفیق عطا کی۔ ہمیں خداوند عالم سے رحمت، رضا، دعا اور اعمال کی قبولیت، عفو اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے کہ در حقیقیت یہی حقیقی عید ہو گی۔

عید سعید فطر، معنوی اور بین الاقوامی تقریب:

شاید عید سعید فطر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہو کہ یہ ایک معنوی اور بین الاقوامی تقریب ہے۔ اس بین الاقوامی تہوار کا بڑا ہی نمایاں اور خصوصی معنوی پہلو ہے۔ عید فطر کی نماز کے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

اسئلک بحقّ ھذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیداً و لمحمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ ذخراً و شرفاً و کرامۃً و مزیداً،

تمام مسلمانوں کی عید، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے باعث شرف، اسلام کا وقار اور پوری تاریخ میں کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔

اس نظریے سے عید سعید فطر کو دیکھنا چاہیے۔ آج ہماری عظیم مسلمان قوم کو اس ذخیرے کی ضرورت ہے۔ اس ذخیرے میں سے مسلمانوں کو دو چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اول باہمی اتحاد اور قربت اور دوسرے عالم اسلام میں معنویت پر توجہ۔ عالم اسلام میں کمال اور ترقی تک پہنچانے والے ان دونوں عناصر کے سلسلے میں بے توجہی پائی جاتی ہے۔

حضرت امیرالمؤمنین  علی علیہ السلام نے عید فطر کے دن لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور اس خطبے میں یوں بیان فرمایا ہے کہ:

فقال ایھا الناس ان یومکم ھذا یوم یثاب فیہ المحسنون و یخسر فیہ المسیئون،

اے لوگو! یہ وہ دن ہے جس میں نیک کام کرنے والوں کو اپنی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور جن لوگوں نے ماہ رمضان میں برائیاں کی ہیں، وہ گھاٹا اٹھائیں گے اور محروم رہیں گے۔

عید یعنی سال کا وہ دن جو خوشی اور مسرت کا باعث ہو، کون سی چیز امت مسلمہ کے لیے خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی اہداف سے قریب ہونا۔

مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد عید فطر کے دن طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں ہوتا ہے:

عید فطر کا دن، طہارت و پاکیزگی کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس وجہ سے ہو کہ آپ نے ایک مہینے تک روزے رکھے ہیں، کوششیں کی ہیں اور اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس وجہ سے بھی ہو کہ اس دن میدان عبادت میں حاضر ہو کر آپ نے اجتماعی عبادت میں حصہ لیا ہے، بہر حال بات یہ ہے کہ مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد عید فطر کے دن طہارت اور تزکیے کے میدان میں ہوتا ہے۔

 

عید فطر کا دن وہ دن ہے جب مسلمان، ماہ مبارک رمضان کے اہم تعمیری اور تربیتی امتحان سے گزر کر گویا پروردگار عالم کے حضور میں حساب کتاب کے لیے بیٹھتے ہیں اور اپنے ماہ رمضان کے اعمال کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کرتے ہیں۔ عید فطر کی شب و روز کی دعاؤں میں اس مفہوم کی جانب اشارہ کیا گيا ہے:

تقبّل منّا شھر رمضان،

ماہ مبارک رمضان کو خدا کی جانب سے قبول کیے جانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔

عید فطر کی مبارکباد، ماہ مبارک رمضان کو کامیابی سے گزارنے کی تہنیت کے معنی میں ہے۔

عید سعید فطر دنیا کے ایک ارب مسلمان آبادی کے جشن و سرور کا دن ہے۔

عید فطر کے دن کو، جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے، قیامت کے دن یعنی روز جزا سے تشبیہ دی گئی ہے۔

عید فطر کا دن، عبادت کی عید ہے، مغفرت کی عید ہے، اس مؤمن مسلمان کے لیے ریاضت اور جدوجہد کے ایک مختصر وقفے کے خاتمے کی عید ہے کہ جو اپنی اس ریاضت اور جدوجہد سے، تہذیب تفس اور اپنے اندر نیک جذبات اور محرکات کی تعمیر و تقویت کے لیے استفادہ کرنا چاہتا ہے اور سال بھر اور پوری عمر اس سے فائدہ اٹھانے کا خواہشمند ہے۔

 

حقیقی عید:

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے کہ: انّما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ و کل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید، آج حقیقی عید ہے،   اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، انسان کے لیے وہ عید کا دن ہے۔

خدا کی معصیت کا ارتکاب نہ کر کے اور محرمات الہی سے اجتناب کر کے، آج کے دن کو عید بنانا چاہیے، کل کے دن کو عید بنانا چاہیے، بلکہ سال کے ہر دن کو اپنے لیے عید بنانا چاہیے۔

 

عید فطر کا دن، خدا کی عبادت اور اس سے تقرب کا دن:

خداوند عالم نے اس مہینے کے آخر میں کہ جو روزے اور عبادت کا مہینہ ہے، ایک ایسا دن رکھا ہے جو عید کا دن ہو، اجتماع کا دن ہو، بہت بڑا دن ہو۔ مسلمان بھائی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، ماہ مبارک رمضان میں حاصل ہونے والی کامیابی اور توفیق کی قدر دانی کریں، اپنے اور خدا کے درمیان اعمال کا احتساب کریں، جو کچھ اس مبارک مہینے میں ان کے لیے ذخیرہ ہو چکا ہے اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں۔ وہ دن، عید کا دن ہے۔

عید فطر کا دن اگرچہ عید ہے لیکن عبادت، توسل، ذکر خدا اور خدا سے قریب ہونے کا بھی دن ہے۔ یہ دن نماز سے شروع ہوتا ہے اور دعا اور توسل پر ختم ہوتا ہے۔ اس دن کی قدر کیجیے، تقوے کے ذخیرے کو غنیمت جانیے اور عید فطر کی اہمیت کو سمجھیے۔

یہ دن، بہت عظیم دن ہے اور نبی اکرم حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیز پوری تاریخ کی تمام اسلامی امتوں سے متعلق ہیں۔

ہر عید فطر ایک آگاہ اور ہوشیار مسلمان انسان کے لیے ایک حقیقی عید کا دن ہو سکتی ہے۔ معنوی اور روحانی زندگی کا دوبارہ آغاز، پودوں اور درختوں کے لیے بہار کی مانند۔ ایک انسان کو، جو ممکنہ طور پر پورے سال مختلف قسم کے گناہوں اور برائیوں میں مبتلا رہا ہو اور جس نے نفسانی خواہشات نیز بری خصلتوں کے سبب اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور کر لیا ہو، پروردگار عالم کی جانب سے ہر سال ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے، اور وہ موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ ماہ رمضان میں دل نرم ہو جاتے ہیں، روحوں میں بالیدگی اور درخشندگی آتی ہے، انسان، خدا کی خصوصی رحمت کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہر کوئي اپنی استعداد، کوشش اور جدوجہد کے مطابق ‌ضیافت الہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے ختم ہوتے ہی، نئے دن کا آغاز، عید فطر کا ہے یعنی وہ دن کہ جب انسان ماہ رمضان میں حاصل کیے گئے نتیجوں سے استفادہ کر کے خدا کے سیدھے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور غلط راستوں سے بچ سکتا ہے۔

 

عید  کے معنی  اور تاریخی اہمیت:

عید:

لفظ عید عود سے بنا ہے۔ جس کے معنی لوٹنا اور بار بار آنے کے ہیں چونکہ یہ پر مسرت دن ہر بار لوٹ کر آتا ہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لیکر آتا ہے اس لیے یہ دن عید کا دن کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:

ترجمہ:

حضرت عیسیٰ بن مریم نے عر ض کیا کہ اے اللہ ہم سب کو پالنے والے ہم پر خوان اتار آسمان سے کہ وہ دن ہمارے پہلوں اور پچھلوں کے لیے عید بنے اور ہو جائے ایک نشانی تیر ی طرف سے اور رزق دے ہمیں اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

سورہ مائدہ آیت 114

اس آیہ مبارکہ میں عید سے مراد مسرت و انسباط کا دن ہے۔ جب آفتاب رسالت نے ریگستان عرب کے دشت و جبل کو منور کیا اور ذرہ ذرہ توحید کے نور سے جگمگا اٹھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ہی ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور امام الانبیاء مدینہ منورہ تشریف لے آئے یہاں پر آپ نے دیکھا کہ اہل مدینہ دو تہوار مناتے ہیں۔ جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے ہیں۔ حضور اکرم (ص) نے فرمایا کہ ان دنوں کی حقیقت کیا ہے اور ان کا کیا  تاریخی پس منظر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ:

ہم ان دنوں کو مدت قدیم سے بس اسی طرح مناتے چلے آ رہے ہیں اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ یعنی عید الفطر اور عید الاضحی گویا یہ مبارک روز سعید یکم شوال 2 ہجری سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ہجرت مبارکہ تاریخ اسلام کا وہ تاریخ ساز اہم اور انقلاب انگیز موڑ ہے، جس سے اسلامی تاریخ اور سن ہجری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ سن 2 ہجری میں غزوہ بدر کی فتح و نصرت کے بعد تاجدار دو جہاں نے قدسیوں کے جھرمٹ میں تکبیر و تہلیل کی دل آویز صدائوں کی گونج میں شہر مدینہ سے باہر عید گاہ میدان میں جا کر نماز ادا کی۔

خداوند سے انعام و اکرام ملنے والا  دن:

عید الفطر روزے داروں کے لیے انعام و عطا کا سالانہ تہوار ہے ۔ جو رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو مذہبی جوش و خروش کیساتھ منایا جاتا ہے۔

عید الفطر کو روزے داروں کے لیے مسرت و رحمت کا پیامبر بنا دیا گیا ہے اور اسے رمضان المبارک میں کی گئی عبادت و ریاضت ، اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل ، حمد و ثناء، درود و سلام اور سحر و افطار کے اجر و ثواب انعام و اکرام کیساتھ نزول قرآن کی برکتوں اور عظمتوں سے عبارت کیا گیا ہے۔

ان خوش قسمت اور با مراد لوگوں کے لیے جنہوں نے رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا، جنہوں نے ان لمحات کو غنیمت جانا اور دل کے ویران اور تنگ و تاریک گوشوں کو عرفان و ایقان کی کرنو ں سے منور کیا۔ جن کی جبینوں میں سجدے مچلتے رہے ۔ جنہوں نے رات اپنے پہلوؤں کو بستروں سے جدا رکھا اور معبود کا قرب پانے کے لیے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے بے قرار اور بے چین رہے۔ جنہوں نے اپنے دلوں کو لمحہ بھر کے لیے یاد الہٰی اور زبان کو ذکر الہٰی سے غافل نہ ہونے دیا۔ جن کی آنکھوں سے ندامت اور پشیمانی کے آنسو سیل رواں بن کر بہتے رہے۔ جنہوں نے قرآن مجید کے نور سے اپنی روح کے مہیب اندھیروں کو اجالا بخشا ،جنہوں نے اذان و اقامت کی روح پرور صدائوں سے اپنے خیالات اور تخیلات کو پاکیزگی بخشی۔ جنہوں نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔ جو رمضان المبارک کا پہلا عشرہ شروع ہوتے ہی اس کی بارگاہ میں اشکوں کے چراغوں سے اجالا کر کے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس کی رحمت کو پکارنے لگے۔

پھر دوسرا عشرہ آیا تو مغفرت کی جستجو اور طلب میں سر گرداں ہو گئے۔ کبھی غفلتوں اور سر کشیوں کے سمندر میں ڈولتی ہوئی اپنی کشتی حیات کو دیکھتے تو کبھی اس کے بے پایان کرم کی وسعتوں کو دیکھتے اور اس باران رحمت کو دیکھتے جو سب کو یکساں سیراب کرتی ہے۔

پھر تیسرا عشرہ آتے ہی جہنم سے آزادی کا پروانہ لینے کے لیے ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگے اور جب رمضان المبارک لیل و نہار کی ان مقدس ساعتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر رخصت ہو جاتا ہے تو رب العزت کے یہ بندے اس کے محبوب کی سنت کو ادا کرتے ہوئے نماز عید کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر اس دن رب العالمین اپنے فرشتوں میں نماز عید کے اجتماعات میں موجود بندوں پر فخر فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے۔ جس نے اپنا کام پورا کر دیا فرشتے کہتے ہیں پروردگار اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسے پوری مزدوری دی جائے۔ پھر خداوند فرماتا ہے کہ مجھے اپنی عز ت و جلال کی قسم میں ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں میں انہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہ کروں گا۔ میرے بندو لوٹ جاؤ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔

عید الفطر مبارک:

 

مسرت اور لذت کا حصول انسانی فطرت کا خاصہ ہے ۔ انسان ابتدا ہی سے خوشیوں کا متلاشی رہا ہے۔ کچھ خوشیاں انفرادی ہوتی ہیں جن میں صرف فرد اور اس سے تعلق رکھنے والے چند اشخاص شریک ہوتے ہیں اور کچھ خوشیاں اجتماعی ہوتی ہیں جن میں کسی مذہب یا علاقے سے وابستہ افراد من حیث القوم شریک ہوتے ہیں۔ خوشی کی ایسی تقریبات کے ایام جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور انہیں مذہبی و ثقافتی حیثیت سے اپنا  لیں، اس قوم کا تہوار قرار پاتے ہیں۔ تاریخ کے ابواب قدیم قوموں کے ایسے تہواروں کے ذکر سے خالی نہیں۔

تہوار مختلف قوموں کی تہذیب و معاشرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ہر قوم اپنے معتقدات اور رسوم و رواج کے مطابق اپنے تہوار مناتی ہے۔ بعض قوموں کے تہوار ظاہری آرائش و زیبائش اور مال و دولت کی نمائش سے عبارت ہوتے ہیں اور کچھ قوموں کے تہوار قومی قوت و شوکت اور قومی استقلال و استحکام کا اظہار کرتے ہیں۔

اسلام ایک دین فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اور فرد اور معاشرے ، دونوں کی اصلاح و فلاح کا ذمہ دار بھی، اس نے ملتِ اسلامیہ کو دو ایسے اسلامی تہواروں اور دینی جشنوں سے سرفراز کیا ہے جو فرزاندانِ اسلام کی خوشی، روحانی بالیدگی ، انفرادی مسرت اور اجتماعی شوکت کا مظہر ہیں۔ ان میں سے ایک تہوار کا نام عید الفطر ہے اور دوسرے کا نام عید الاضحٰی ۔

اس طرح رسول خدا نے تمام مسلمانوں کو ،عیدین سعیدین، دو بابرکت عیدوں کا تحفہ عطا فرمایا ۔

عید الفطر، کا لفظ دو لفظوں عید اور الفطر سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے، عود عادً یعود عوداً و عیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا واپس ہونا ، پھر آنا  چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو عید کہتے ہیں۔

 

فطر کے معنی کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:

رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کر جس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کر کے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے ۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادی کے ان افراد کو بھی صدقۃ الفطر ادا کر کے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں  رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔

عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے یہ تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اورعبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ عاقل و بالغ اور تندرست مسلمان مہینہ بھر دن کو روزہ رکھتے اور مسلمان ماہ رمضان میں تلاوت قرآن حکیم کا بالخصوص اہتمام کرتے ہیں۔

یوم عید کے اکثر اعمال سے اس عقیدے کا اظہار ہوتا ہے کہ عظمتوں کے تمام پہلو اور کبریائی کی تمام صورتیں صرف خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان ہیں۔ کبریائی اسی کی ذات کی زیبائی اور عظمت و جبروت اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہیں۔ تمام بندگانِ الٰہی وہ حاکم ہوں یا محکوم ، خادم ہوں یا مخدوم ، امیر ہوں یا غریب ، قوی ہوں یا ضعیف، سب کے سب اس کے عاجز بندے اور فانی مخلوق ہیں۔ وہ سب کا حاکم علی الاطلاق اور رازق دان داتا ہے۔ وہی اوّل و آخر ، وہی حیی و قیوم اور وہی ازلی اور ابدی ہے اور عظمت و کبریائی کے تمام مظاہرے صرف اور صرف اس کا ذاتی حق ہیں۔ عید الفطر کے روز عید گاہ جاتے ہوئے سب کے دمہ کا بلند آواز سے تکبیریں  کہتے ہوئے جانا صلوۃ العیدین میں زائد تکبیریں پڑھنا اور پھر خطبہ عید میں متعدد بار ان تکبیروں کا دہرایا جانا محض اس لیے ہوتا ہے کہ توحید الٰہی اور مساوات اسلامی کا تصور مسلمانوں کے دلوں میں رچ بس جائے۔

عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آ جانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت چھ تکبیروں)کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے تین پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہی اور بقیہ تین دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا اعتقاد ہے کہ اسلام میں انہیں حکم دیا گیا ہے کہ رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو ۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو۔

 

عید الفطر، عالم اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی عقیدت و جوش و خروش سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے جبکہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔

عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ، خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں، یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالٰیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔

عالم اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عید الفطر کا یہ تہوار جو پورے ایک دن پر محیط ہے اسے، چھوٹی عید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جبکہ اسکی یہ نسبت عید الاضحیٰ کی وجہ سے ہے کیونکہ عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل ہے اور اسے، بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ ( 185آیت) میں اللہ تعالٰی کے فرمان کے مطابق ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے، لہذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔

 

عید کی رسومات اور مستحبات:

عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑ ے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں ،ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں ،مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔

خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے نماز عید سے پہلے کچھ میٹھا یا پھر کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت رسول خدا (ص) ہے۔ اور اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ آواز سےتکبیریں ( اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا اله إلا الله ،والله اكبر ،الله اكبر ،ولله الحمد ) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔

عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورہ کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ عید الفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی سے اسکی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے: فطرانہ کی ادائیگی وغیرہ۔ اسکے بعد دعا کے اختتام پر اکثر لوگ اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے مسلمان بھائیوں کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کیطرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔

شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت کی اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: یعنی، اللہ اکبر اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، و للہ الحمد، تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر یا فطرانہ ادا کرنا واجب ہے جو ماہ رمضان سے متعلق ہے۔ مندرجہ ذیل چند باتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں:

 

صدقہ فطرانہ:

صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔

صدقہ فطر ہرصاحب نصاب مسلمان مرد، عورت، آزاد، عاقل،بالغ پر واجب ہے۔

صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے، لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اسکی مقدار مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جس کا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے اور زیادہ تر مدارس میں ادا کر دیا جاتا ہے یا پھر مقامی ضرورت مندوں، غربا اور مساکین، بیوگان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی روایات میں عید الفطر ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی ایک علامت ہے جبکہ مسلم برادری میں روزہ بنیادی اقدار کا حامل ہے۔ علماء کے نزدیک بنیادی طور پر روزہ کا امتیاز یہ ہے کہ اسے انسان کی نفسی محکومی پر روحانیت کی مہر ثبت کرنا تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام عالم میں مسلم امہ عید کا تہوار بڑے شاندار انداز میں مناتے ہیں۔

 

عید فطر کی با ‌فضیلت نماز:

یہ بہت با فضیلت نماز ہے۔ اس نماز میں دعا، التجا، گریہ و زاری اور خدا کی جانب توجہ ہے۔ عید فطر کی نماز بڑی اچھی نماز ہے۔ تمام عبادتیں اس لیے ہیں کہ ہماری تربیت ہو اور ہم آگے بڑھیں۔

 

سوال: عیدالفطرکو عید الفطر کیوں کہتے ہیں؟

عید الفطر کو عید الفطر اس لیے کہتے ہیں کہ ماہ رمضان گزر جانے کے بعد عید کے دن افطار کرتے ہیں یعنی کھانا وغیرہ کھاتے ہیں، یعنی روزہ نہیں رکھتے۔

 

عید کی نماز کے قنوت میں پڑھتے ہیں :

بار الھا ! اس دن کے واسطے کہ جسے  مسلمانوں کے لیے عید اور محمد صلی اللہ علیہ والہ  کے لیے شرافت ، کرامت اور فضیلت کا ذخیرہ قرار دیا ہے ۔ تجھ سے سوال کرتا ہوں  محمد و آل محمد پر درود بھیج اور مجھے اس خیر میں شامل فرما جس میں محمد و آل محمد کو شامل فرمایا ہے اور مجھے ہر بدی سے نکال دے جن  سے محمد و آل محمد کو نکالا ۔ ان پر آپ کا درود و سلام  ہو، خدایا تجھ سے وہی کچھ مانگتا ہوں جو تیرے نیک بندے تجھ سے مانگتے ہیں ، اور تجھ سے ان چیزوں سے پنا ہ مانگتا ہوں کہ جن سے تیرے مخلص بندے مانگتے تھے ۔

 

نماز عید فطر کے قنوت کی تعلیمات:

عید فطر، مسلمانوں اور اہل ایمان کی عالمی عید ہے۔ پیغمبر خدا (ص) اور آئمہ (ع) نے خدا کے الہام کے ذریعہ کچھ اوقات کو عید قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  یہ دن کیوں عید ہے اور کس نے پہلی شوال کو عید قرار دیا، اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کا بہترین ماخذ، اہلبیت علیہم السلام کی احادیث ہیں۔

نماز عید فطر کا اہم حصہ ، دعائے قنوت ہے۔ یہ دعا 9 مرتبہ اس نماز میں پڑھی جاتی ہے، یقینا اس دعا میں ہمارے لیے کچھ اہم تعلیمات ہیں جو بارگاہ  خداوندی سے ہمارے لیے اس دن کا بہترین تحفہ ہے اور رہنمائی ہے اس عظیم دن کی تفسیر کی طرف۔ہم اس مضمون میں اس دعا کی کچھ تعلیمات کو  اختصار کے ساتھ، فہرست وار  پیش کرینگے۔

 

  1. صفات الہی سے تمسک:

اس دعا کا پہلا حصہ، صفات الہی کی شناخت کے متعلق ہے،  معرفت خدا کا طلبگار انسان، بار ہا اس دعا میں اپنے رب کے اسماء سے تمسک اختیار کرتا ہے اور خود کو  اپنے بے مثل خدا کے نزدیک پہنچا کر آواز دیتا ہے:

اللّهُمَّ اَهْلَ الکِبْریاءِ وَالعَظَمَةِ ، وَاَهْلَ الْجُودِ وَالْجَبَرُوتِ،

پروردگارا! اے وہ کہ جو عظمت و بزرگی کے لائق اور سخاوت و قدرت کا اہل ہے۔

 

  1. فضائل کے سرچشمہ سے رابطہ:

اس دعا کے دوسرے حصے میں ہم خدا کے عفو اور رحمت پہ توجہ دیتے ہوئے، اس کی بارگاہ میں عاجزانہ درخواست کرتے ہیں:

وَاَهْلَ العَفْوِ وَالرَّحْمَةِ ، وَاَهْلَ التَّقْوَی وَالمَغْفِرَةِ،

پروردگارا! اے وہ کہ جو عفو و رحمت کا اہل ہے اور تقویٰ و مغفرت کا حقیقی ظاہر کرنے والا ہے۔

خداوند عالم، عفو و بخشش، رحمت و مغفرت کا حقیقی اہل ہے اور وہ اپنی اس صفت کی جانب، پیغمبر رحمت پر وحی کر کے اس طرح اشارہ کرتا ہے:

قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّه ِنَّ اللَّه یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً ِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ،

پیغمبر آپ پیغام پہنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

سورہ زمر آیت 53.

اس دعا کے ایک حصہ میں، مسلمانوں کی اس عید کو سیاسی اور اجتماعی زوایہ سے دیکھتے ہوئے، عالم اسلام کی عزت کی نمایش کو بطور حقیقی عید ، مسلمانوں کو مبارکباد پیش کر کے بارگاہ خدائے متعال میں عرض کرتے ہیں:

اَسْأَلُکَ بِحَقِّ هذَا الیَوْمِ ، الَّذِی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِین عِیداً،

تجھ سے درخواست کرتا ہوں اس دن کے حق کے طفیل میں کہ جسے تو نے مسلمانوں کے لیے عید قرار دیا ہے۔

عید فطر کا اجتماع ممکن ہے کہ مسلمانوں کے رابطے اور قربت کے لیے کارساز ثابت ہو۔ مسلمان ایک ساتھ جمع ہو کر ایک دوسرے کے حالات اور دکھ درد سے آگاہ ہونگے اور ممکن ہے کہ لوگوں کا بغض و کینہ، دوستی اور محبت میں تبدیل ہو جائے۔

 

  1. پیغمبر(ص) کے اکرام اور شکریہ کا دن

اس قنوت میں 9 مرتبہ پیغمبر گرامی کے اکرام اور تعظیم کی بات کرتے ہوئے خدا سے تقاضا کیا جاتا ہے:

وَ لِمُحَمَّدٍ صلی‏ الله‏ علیه‏ و‏آله‏ وسلم ذُخْراً وَشَرَفاً وَکَرامَةً وَمَزِیداً اَنْ تُصلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ،

اور (اس دن کو) محمد کے لیے ذخیرہ، شرف، کرامت اور مقام کی بلندی قرار دیا، اے پروردگار،  رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کی آل (علیہم السلام) پر۔

 

  1. اقدار کی جانب سفر:

اس دعا میں ہم سب ، خوبیوں اور اچھائیوں کی طرف جانے کے لیے اور برائیوں سے دوری طلب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وَاَنْ تُدْخِلَنِی فِی کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ، وَاَنْ تُخْرِجَنِی مِنْ کُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ،

اور ہمیں ہر اس خوبی اور اچھائی میں داخل کر جس میں محمد و آل محمد (علیہم السلام) کو داخل کیا۔ اور ہر اس برائی سے ہمیں باہر نکال دے جس سے محمد و آل محمد (علیہم السلام) کو نکالا ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تمام اچھائیوں کی طرف پیش قدم رہیں یعنی تمام بہترین انسانی خصلتیں، مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے تمام عالم تک پہنچنی چاہئیں۔

 

  1. ولایت اور معرفت امام کا دن:

اس دعا کے چھٹے حصے میں ان انسان کامل حضرات کے لیے صلوات و سلام کی آرزو کی جاتی ہے کہ جنکے دوش پر امت کی رہبری کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان کے لیے اس طرح صلوات کے خواہاں ہوتے ہیں:

صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلیْهِمْ،

تیری صلوات اور رحمتیں نازل ہوں محمد پر اور ان کے بابرکت خاندان پر۔

 

  1. نیک لوگوں کی پیروی کی آرزو کرنا:

صالح بندوں کو نمونہ عمل اور اسوہ قرار دینا، اس دعا کی ایک اور تعلیم ہے، چونکہ مقصد اور منزل کی جانب رہنمائی، بغیر اسوہ اور عملی نمونے کے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اس دعا کے آخری حصہ میں، بارگاہ خدائے منان میں ہم دعا کرتے ہیں:

اللّهُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ خَیْرَ ما سَأَلَکَ بِهِ عِبادُکَ الصّالِحُونَ، وَاَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ المُخْلَصُونَ،

خداوندا! تجھ سے اس بہترین چیز کی خواہش اور طلب کر رہا ہوں جس کو تیرے صالح بندوں نے تجھ سے طلب کیا ہو۔ اور تیری بارگاہ میں اس چیز سے پناہ چاہتا ہوں، جس سے تیرے مخلص بندوں نے پناہ چاہی ہے۔

خداوند عالم ہم سب کو اس عید پرمسرت کو اس کی مرضی کے مطابق منانے کی توفیق عنایت کرے۔

بے شک عید خوشیوں کا دن ہے اور اس دن خوشیاں منانے کی تاکید بھی ملتی ہے مگر حقیقت میں مسلمانوں‌ کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اُس سے اُس کا پالنے والا اللہ راضی ہو جائے اور وہ اپنے خدا سے راضی ہو جائے، چنانچہ قرآن کریم میں واضح لفظوں میں اعلان ہے کہ:

رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ،

ان کی کامیابی اور خوشی کا عالم یہ ہو گا کہ وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا۔

کیونکہ اللہ کی خوشنودی کو ہی اللہ نے قرآن کریم میں سب سے بڑی خوشی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے جو جنت والوں کو نصیب ہو گی یہی تو زبردست کامیابی ہے۔

 

شوال کے پہلے دن کو اس لیے عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں۔ فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کے آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جائے تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لیے رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہو جاتی ہے۔

 

  • رسول خدا (ص) سے شب عید کے بارے میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ:

قال النبی (ص) إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ الْفِطْرِ وَ هِيَ تُسَمَّى لَيْلَةَ الْجَوَائِزِ أَعْطَى اللَّهُ الْعَالَمِينَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَإِذَا كَانَتْ غَدَاةُ يَوْمِ الْفِطْرِ بَعَثَ اللَّهُ الْمَلَائِكَةَ فِي كُلِّ الْبِلَادِ- فَيَهْبِطُونَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يَقِفُونَ عَلَى أَفْوَاهِ السِّكَكِ فَيَقُولُونَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَى رَبٍّ كَرِيمٍ يُعْطِي الْجَزِيلَ وَ يَغْفِرُ الْعَظِيمَ.

جب شب عید فطر کہ اسے انعام لینے والی شب بھی کہا جاتا ہے، خداوند عمل و عبادت کرنے والوں کی جزاء کو بے حد و بے حساب عطا کرتا ہے اور جب صبح عید فطر کا دن آتا ہے تو خداوند اپنے تمام فرشتوں کو شہروں میں نازل کرتا ہے اور وہ جگہ جگہ کھڑے ہو کر ندا دیتے ہیں کہ: اے امت محمد (ص) خداوند کی طرف عید کی نماز پڑھنے کے نکل پڑو کیونکہ خداوند بہت زیادہ اجر دینے والا اور بڑے بڑے گناہوں کو بخشنے والا ہے۔

أمالي المفيد، ص: 232

 

  • حضرت علی علیہ السلام کی حدیث ہے کہ جس میں آپ علیہ السلام نے عید کی حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ :

إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَه وَ شَكَرَ قِيَامَهُ ُ وَ كُلُّ يَوْمٍ لَا تَعْصِي اللَّهَ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ،

آج حقیقی عید ہے اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔

 

التماس دعا…..