شیعہ کب وجود میں آئے؟

 

علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کا نام خود رسول اسلام (ص) نے دیا اور انہیں خیر البریہ یعنی بہترین مخلوق کا مصداق قرار دیا جو خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حق بجانب کون سا فرقہ ہے اور حقیقی اسلام کے وارث کون لوگ ہیں؟

سوال:

شیعت کی پیدائش کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں آپ بتائیے کہ شیعہ کب وجود میں آئے؟

جواب:

اس طرح کا سوال کلامی اور فقہی فرقوں کے بارے میں کیا جاتا ہے مثال کے طور پر یہ پوچھا جاتا ہے کہ فرقہ اشعری کب وجود میں آیا؟ یا فرقہ معتزلہ کب وجود میں آیا؟ یا مثلا فرقہ حنبلی یا شافعی کب وجود میں آیا؟ اس طرح کے سوالوں کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرقہ اشعری چوتھی صدی ہجری قمری میں ابوالحسن اشعری کے ذریعے وجود میں آیا معتزلہ کی واصل بن عطا نے دوسری صدی ہجری میں بنیاد رکھی۔ اسی طرح فقہی مذاہب کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حنفی مذھب ابو حنیفہ کے ذریعے دوسری صدی ہجری میں اور شافعی مذھب محمد بن ادریس شافعی کے ذریعے تیسری صدی ہجری میں وجود میں آیا۔

لیکن شیعت کے بارے میں یہ سوال کرنا ہی درست نہیں ہے چونکہ شیعہ کوئی ایسا فرقہ نہیں ہے جو بعد میں کسی ایک شخصیت کے ذریعے وجود میں آیا ہو بلکہ شیعت وہی اسلام ہے جسے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفیٰ(ص) لے کر آئے تھے شیعت وہی اسلام ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امامت اور ولایت کی صورت میں اسلامی سماج کی رہبریت کے لیے آگے بڑھا۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس کا حکم خود خداوند متعال نے دیا اور رسول اسلام(ص) نے اس کا اعلان فرما کر اپنی آنکھ بند کر لی۔ یہ ایک ایسی بنیادی اصل ہے جس پر اسلام کی بقا ہے جس سے اسلام کا تشخص باقی ہے اور اسی حقیقی اور محمدی(ص) اسلام کا دوسرا نام تشیع یا شیعت ہے۔ اسلام کے اس دوسرے نام کا تذکرہ بھی خود زبان مبارک رسول سے ہوا اور بہت سارے اصحاب نے اسی الہی اور محمدی(ص) طریقہ کار کو آپ(ص) کی رحلت کے فورا بعد اپنایا اور اسی پر تا حیات باقی رہے یہ وہ اصحاب تھے جنہیں خود رسول اسلام(ص) نے شیعہ ہونے کا لقب دیا تھا اور درحقیقت پیغمراسلام(ص) انہی اصحاب کے ذریعے اسلام کے دوسرے نام کو تشیع کی صورت میں پہچنوا رہے تھے۔ لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ ایسے بھی تھے جنہوں نے رسول اسلام(ص) کے ذریعے بیان کئے ہوئے اس بنیادی اصول کو نظر انداز کر دیا اور خلافت و جانشینی رسول کے مقام پر زبردستی قبضہ جما لیا اور لوگوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بجائے اس کے کہ رسول کے حقیقی جانشین کی رہبریت کو قبول کریں ان کی خلافت پر ایمان لائیں اور ان کی بیعت کریں۔

شیعت اس معنی میں خود اسلام کا حصہ بلکہ حقیقی اسلام ہے اور یہ اصول یعنی رسول کی جانشینی کا تعین ’’من جانب اللہ‘‘ ہونا چاہیے اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے اور خود رسول اسلام (ص) نے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنے جانشین کا اعلان اپنی حیات مبارکہ میں کر دیا تھا۔

انتخاب رہبر کے طریقے پر عقلی تجزیہ

جب بھی احادیث اور تاریخی کی کتابوں کی چھان بین کرتے ہیں تو سب سے زیادہ ہمیں اسلامی حکومت کے طریقہ کار کے بارے میں گفتگو ملتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ییغمبر اسلام (ص) نے اپنے بعد امت اسلامی کی حکمرانی کی باگ ڈور کسی ایک شخص کے حوالے کی یا یہ وظیفہ خود امت کے حوالے کر دیا؟

تاریخی، احادیثی اور اعتقادی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے بعد امت کی رہبری امر الہی سے ایک خاص شخص کے حوالے کی اور یہ سنگین وظیفہ امت کے حوالے نہیں کیا۔ اس لیے کہ جب پیغمبر اسلام نے دنیا سے رحلت فرمائی تو تین طرح کے طاقتور دشمن امت کی تاک میں بیٹھے تھے مشرق کی جانب سے آتش پرست مجوس، مغرب کی جانب رومی عیسائی اور خود اسلام کے اندر منافقین کا گروہ جو ہر لمحہ اسلام کی نابودی کے لیے کوشاں تھے۔

ایسے عالم میں پیغمبر گرامی اسلام کی کیا ذمہ داری بنتی تھی؟ کیا اسلامی سماج کے لیے کسی عالم، شجاع، زاہد اور رہبریت کے قابل شخص کو معین اور مقرر فرما کر اسلام کو در پیش آنے والے خطرات سے بچائیں یا اس کام کو امت کے حوالے کردیں اور امت خود اپنا رہبر بھی مقرر کرے اور مشکلات کے ساتھ دست و پنچہ بھی نرم کرے؟ اور اس کے ساتھ ساتھ خود اس مسئلہ میں امت پاش پاش ہو کر رہ جائے۔ اس لیے امت کی رہبریت کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں تھا خلافت اور حکمرانی کا مسئلہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ نہیں تھا جس کے پاس سے مسلمان آسانی سے گذر جاتے اور حکمرانی کی خواہش دل سے نکال دیتے بلکہ اس کے برخلاف پیغمبر اسلام(ص) بخوبی یہ جانتے تھے کہ ان کی بزم میں بیٹھنے والے دسیوں ایسے کلمہ گو موجود ہیں جو صرف اس تاک میں ہیں کہ کب پیغمبر کی آنکھیں بند ہوں اور خلافت کی کرسی پر جھپٹا جائے۔ ایسے میں ایک معمولی سی عقل رکھنے والا انسان خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ پیغمبر کو کیا کرنا چاہیے؟ اگر ایک معمولی انسان بخوبی فیصلہ کر سکتا ہے تو کیا عقلِ کُل رکھنے والا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا؟

دوسرے لفظوں میں بعد پیغمبر حاکم اسلامی کے تعین کے لیے دو ہی راستے ہیں ایک تنصیص دوسرا انتخاب۔ تنصیص یعنی خود پیغمبر اپنا جانشین مقرر کریں۔ انتخاب یعنی مہاجرین اور انصار پیغمبر کا جانشین انتخاب کریں۔ ان دو راستوں کے پیش نظر اگر پیغمبر اسلام(ص) کی موقعیت کو نزدیک سے تحقیق کریں تو تین صورتیں سامنے آتی ہیں:

  • پیغمبر نے اپنے جانشین کو مقرر کرنے کے حوالے سے کوئی بات نہ کی ہو۔
  • پیغمبر نے اپنے جانشین کے تعین کا طریقہ بتا کر اسے شوریٰ کے سپرد کر دیا ہو تاکہ وہ جسے چاہیں انتخاب کر لیں۔
  • اپنے تربیت کردہ افراد میں سے کسی ایک کو اپنا جانشین خود مقرر کر دیں۔

پہلی صورت دین اسلام کے جامع، کامل اور قیامت تک باقی رہنے والے دین کے اعتبار سے اس کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتی اس لیے کہ اسلام ایک انفرادی دین نہیں ہے اسلام کسی ایک شعبہ زندگی سے مخصوص نہیں ہے یہ ایسا جامع اور کامل دین ہے جس میں دنیا کا ہر خشک وتر موجود ہے لہذا ممکن نہیں ہے کہ اس کا لانے والا اس کی بقا کی نسبت ایک غیر منطقی رویہ اختیار کرے اور خاموشی سے کام لے۔

دوسری صورت کسی حد تک قابل قبول ہے کہ پیغمبر اپنے جانشین کے حوالے سے مثبت دید رکھتے ہوں لیکن اس کے اںتخاب کو شوریٰ پر چھوڑ دیں لیکن ایسی صورت میں پیغمبر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف اشارہ کریں اور شوریٰ کے شرائط اور قوانین معین فرمائیں مسلمانوں کو یہ چیز سکھانے کے لئے زندگی میں کبھی ایک بار اسے عملی طور پر انجام دے کر بتائیں کہ شوریٰ یہ ہوتی ہے اس کے شرائط یہ ہوتے ہیں اور اس کے ذریعے اس طرح رہبر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ پیغمبر اکرم(ص) کی پوری زندگی اور ان کی تمام تر احادیث چھان مارنے کے بعد کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آتی حتی اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ایسا ہوا اور جانشین کو انتخاب کرنے کا طریقہ صرف شوریٰ پر منحصر کر دیا گیا توایسی صورت میں یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہنا چاہیے تھا اور قیامت تک آنے والے خلفائے اسلام اسی طریقہ کار سے انتخاب ہونا چاہیے تھے جبکہ ایسا صرف پہلی بار ہوا اور خلیفہ اول نے اپنی زندگی کے اختتام پر اس طریقے پر عمل نہیں کیا اور اپنے جانشین کو خود مقرر کر دیا۔ فرض کریں اگر حکم رسول یا سنت رسول یا تاکید رسول شوریٰ کے ذریعے جانشین انتخاب کرنے پر تھی تو پہلے ہی خلیفہ نے کیوں اس سنت کو توڑ دیا؟

اسلام میں حکومت کا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان مسئلہ نہیں ہے کہ ایک جملے «وَأَمْرُهُمْ شُورى بَيْنَهُمْ» سے حل و فصل ہو جائے۔

واضح سی بات ہے کہ تیسری صورت ہی گزشتہ دو صورتوں میں سے قابل قبول ہے اور اتفاق سے پیغمبر اسلام(ص) کی دسیوں معتبر حدیثیں اسے نظریے کی تائید کرتی ہیں کہ خود پیغمبر اسلام(ص) نے اپنا جانشین اپنی حیات مبارکہ میں مقرر فرمایا۔

یہاں پر ہم چند ایک ان احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں خود رسول اسلام نے لفظ شیعہ کو اپنی زبان مبارک پر جاری فرما کر اس فرقے کا تعارف کروایا:

اکثر شیعہ و سنی محدثین اور مفسرین کا کہنا ہے کہ جب قرآن کریم کے سورہ بینہ کی یہ آیت «إِنَّ الّذينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّالِحات أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيّة» نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی رخ کر کے فرمایا:

” اس آیت سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں جو قیامت میں راضی ہوں گے اور خدا ان سے راضی ہو گا”-

اسی ملتی جھلتی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے اس مقام پر حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’ اس سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں جو قیامت میں حوض کوثر پر اس وقت مجھ پر وارد ہوں گے جب تمام امتیں اپنا حساب کروانے وہاں آئیں گی، آپ کو بلایا جائے گا اس حال میں آپ کی پیشانی سے نور چمک رہا ہو گا۔‘‘

گزشتہ دو احادیثیں ان تمام حدیثوں کا خلاصہ ہیں جو اس آیت کے ذیل میں رسول اسلام (ص) سے مختلف کتابوں میں نقل ہوئی ہیں بنعوان مثال چند کتابوں کا حوالہ یہاں ملاحظہ کر لیں(الدر المنثور، ج6، ص 589; الصواعق المحرقه، ص 161; نهايه ابن اثير، ماده قمح، ج4، ص 106; مناقب ابن مغازلي، ص 293; و غيرہ)

لہذا علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کا نام خود رسول اسلام (ص) نے دیا اور انہیں خیر البریہ یعنی بہترین مخلوق کا مصداق قرار دیا جو خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حق بجانب کون سا فرقہ ہے اور حقیقی اسلام کے وارث کون لوگ ہیں؟

 امامت، تسلسل نبوت

اس میں کوئی شک نہیں کہ مقام امامت اور مقام نبوت کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ پیغمبر پر وحی ہوتی ہے اور وہ دین کا موسس اور اس کی بنیاد رکھنے والا ہوتا ہے جبکہ امام نہ ہی وحی حاصل کرتا ہے اور نہ ہی کسی دین کی بنیاد رکھ سکتا ہے بلکہ صرف ان وظائف کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے جو اس سے ماقبل رسول یا نبی نے معین کئے ہوتے ہیں۔ بنابرایں امامت نبوت کا تسلسل ہوتی ہے اور امام بعدِ نبی اسلامی مملکت کے تمام اجتماعی، انفرادی، دنیوی اور اخروی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر جب رسول ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے روز اول دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر اعلان رسالت کیا تواسی دن اپنے جانشین اور خلیفہ کو مقرر کر دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نبوت اور امامت ہمزاد ہیں امامت نبوت کا تسلسل ہے اور دونوں عہدے الہی عہدے ہیں اور دونوں وحی الہی کے ذریعے ہی مقرر ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ائمہ معصومین (ع) کی امامت کے قائلین اس بات کے معتقد ہیں کہ ائمہ معصومین (ع) منصوص من جانب اللہ ہیں اور ان کی اطاعت رسول اور خدا کی اطاعت ہے۔ شیعت کا یہی طرہ امتیاز ہے کہ یہ اسلام ناب محمدی (ص) ہے جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوئی جس میں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کی رائے شامل نہیں ہوئی جس کو انہوں نے مقرر کیا تشیع نے اسی کو مانا، جس کی اطاعت کا حکم اللہ اور رسول نے دیا اسی کی اطاعت کی اور یہ جانشین رسول کی اطاعت کا حکم اسی دن مل گیا تھا جس نے اعلان رسالت ہوا تھا۔ لہذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ کوئی یہ کہے کہ مذہب تشیع بعد کی پیداوار ہے۔

 

ترجمہ: افتخار علی جعفری