شیعہ کافر کہتے کہتے خود شیعہ ہوگیا

 

شیعہ مذہب قبول کرنے والے یمن کے نامور عالم دین (ڈاکٹر عصام العماد)

  • مستبصر کا نام:      ڈاکٹر عصام العماد
  • زمرہ جات:              مستبصرین کے آراء و نظریات

 

شیعہ کافر کہتے کہتے خود شیعہ ہوگیا

ضرور پڑھیں

حال ہی میں شیعہ مذہب قبول کرنے والے یمن کے نامور عالم دین (ڈاکٹر عصام العماد)

نے بتا دیا کہ انھوں نے کیسے ہدایت پائی….

ایک بار ضرور پڑھیں… !!

ڈاکٹر عصام العماد جو پہلے ایک نجدی عالم دین تھے نے اپنے ملک کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی بیداری اور عربی ملکوں میں انقلابی تحریک سے پہلے تک، یمن وہابیوں کا ایک مستحکم مرکز تھا۔جامعۃ المصطفیٰ (ص) العالمیہ کے اس استاد نے مزید کہا: یمن میں حوثیوں جن کا تعلق طباطبائی سادات سے ہے کے قیام سے آج اس ملک میں نجدی زوال کی طرف جا رہے ہیں اور شیعہ کثرت کے ساتھ پھیل رہے ہیں آج یمن میں شیعوں کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔

میرا گھر یمن میں ابھی بھی فرقہ وہابیت کی نشر و اشاعت کا مرکز ہے

یمن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عصام العماد نے مزید کہا: یمن میں زیدی اور اثناء عشری شیعوں نے مل کر قیام کیا اور اس ملک میں وہابیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعہ قائم کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: یمن میں تیس لاکھ سے زیادہ آبادی ہے کہ جن میں تقریبا آدھے زیدی اور اثنی عشری شیعہ ہیں۔

اسلامی مفکر نے کہا: یمن کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے یہی چیز باعث بنی ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب سے وہابی علماء وہاں جا کر وہابیت کی تبلیغ کررہے ہیں۔ وہابیت آج عالم اسلام کی سب سے بڑی مشکل ہے۔

انہوں نے یمن میں اپنے گھر والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میرے والد کا گھر یمن میں ابھی بھی وہابیت کی ترویج کا مرکز بنا ہوا ہے اور بہت سارے لوگ اس گھر میں وہابی افکار سے آشنا ہوتے ہیں۔

عماد نے یاد دہانی کرائی کہ میں چھے سال کی عمر میں وہابیت کی کلاس میں حاضر ہونا شروع ہوا تھا اور کچھ ہی سالوں میں وہابیت سے آشنا ہو گیا تھا اور اس بات کی وجہ کہ کیوں وہابی، بچوں کو اپنے افکار سے آشنا کرتے ہیں یہ ہے کہ بچے جلدی باتوں کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کے ذہن میں کوئی استدلال اور اعتراض نہیں آتا۔

مجھے خطبہ حضرت زھرا(س) نے شیعہ کیا

ڈاکٹر عماد نے اپنے شیعہ ہونے کے بارے میں بتایا: میں نے سعودی یونیورسٹیوں میں تعلیم مکمل کی آخر میں ایک سنی عالم دین جاھز کی کتاب پر تحقیق کرتے ہوئے جب میں ان کی ایک عبارت پر پہنچا جس سے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیوں پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے رسول(ص) کی بیٹی کی حمایت نہیں کی؟

انہوں نے مزید کہا: حضرت زہرا (س) اپنا حق حاصل کرنے کے لیے حضرت علی (ع) اور امام حسن و حسین (ع) کو لے کر خلیفہ اول کے پاس گئیں لیکن خلیفہ اول نے ان کی گواہی قبول نہیں کی اس سلسلے میں جاھز نے بہت اچھا جواب دیا ہے۔

العماد نے جاھز کےجواب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جاھز کا کہنا ہے کہ جب خلیفہ دوم منبر رسول پر بیٹھ کر صحابیوں کے بھرے مجمع میں یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ رسول کہتے تھے متعہ حلال ہے اور میں کہتا ہوں حرام ہے اور تمام صحابی مسجد میں بیٹھے خلیفہ دوم کی باتیں سن کر خاموش ہو جاتے ہیں تو ایسے افراد سے کیا توقع کی جا سکتی ہے.

انہوں نے امام فخر الدین رازی کے کچھ جملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: جب میں وہابی تھا یہ سوچتا تھا کہ یہ جو حضرت زہرا(س) نے کہا کہ میرے جنازے میں یہ دو لوگ شریک نہ ہوں تو اس میں قصور حضرت زہرا(س) کا تھا نہ کہ خلیفہ اول و دوم کا لیکن جب میں نے تحقیق کی تو اس کے برخلاف معلوم ہوا۔ میں اسی مسئلے کی تحقیق کر رہا تھا کہ امام فخر الدین رازی کی اس عبارت تک پہنچا جو میرے لیے بہت دلچسپ تھے ان کو پڑھ کر میں مطمئن ہو گیا کہ حضرت زہرا(س) حق پر تھیں، وہ عبارت یہ تھی: ’’قرآن کریم میں موجودہ ارث سے متعلق آیات اور رسول سے مروی احادیث میں وراثت چھوڑنے پر تاکید کی گئی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ رسول اسلام(ص) خود فدک دوسروں کو بخش دیں اور اپنی بیٹی کو وراثت میں نہ دیں؟‘‘

حضرت زھرا(س) پر پڑے مصائب کو بیان کرنا میرا فریضہ ہے

عصام العماد نے مزید کہا: ایک مرتبہ ایک صحابی، رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے اپنا سارا مال راہ خدا میں وقف کر دیا ہے تو رسول ناراض ہو گئے اور کہا کہ تم صرف ایک تہائی حصے کو وقف کرنے کا حق رکھتے ہو ، اب کیسے ممکن ہے خود رسول اپنے بعد سارا مال بخش دیں اور اپنی اولاد کو کچھ نہ دیں؟

انہوں نے کہا کہ میں فخرالدین رازی کی یہ عبارت پڑھ کر حیران رہ گیا حضرت زھرا (س) کی مظلومیت کا احساس کیا۔ حضرت زھرا(س) کی مظلومیت میرے شیعہ ہونے کا باعث بنی اور میں نے اس چیز کو ایک مقالے’’ میرے شیعہ ہونے میں حضرت زھرا(س) کی مظلومیت کا کرار‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

عصام العماد نے کہا: اس کے بعد میں نے ایک سنی عالم دین کی لکھی ہوئی کتاب کا مطالعہ کیا جو انہوں نے شیعہ ہونے کے بعد لکھی تھی اور اس کا نام تھا ’’ بنور فاطمہ سلام اللہ علیہا اھتدیت‘‘ ( میں نے نور فاطمہ کے ذریعے ہدایت پائی) اس کتاب میں، میں حضرت زھرا (س) کے خطبے کو پڑھ کر شیعہ ہو گیا۔

انہوں نے مزید کہا: وہابیوں کے لیے بہت سخت ہے کہ وہ اس بات کو قبول کریں کہ حضرت زھرا (س) حق بجانب تھیں چونکہ اس بات سے خود ان پر اعتراض ہوتا ہے۔ اس وجہ سے میں نے یہ ٹھال لی ہے کہ شیعت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے خلیفہ اول و دوم کی طرف سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر ڈھائے گئے مظالم کو بیان کروں۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عصام العماد ایک وہابی عالم دین تھے جنہوں نے شیعہ مذہب کا مطالعہ کرنے کے بعد مذہب حقہ کو قبول کیا انہوں نے شیعہ ہونے سے پہلے ۱۷ سال ایک سنی سعودی عرب کی وہابی یونیورسٹی میں عالم حاصل کیا اور اس دوران شیعہ مذہب اور امام علی (ع) کے خلاف کتاب لکھی اور شیعہ ہونے کے بعد اپنی اس پہلی کتاب پر جواب لکھا۔

قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر العماد شیعہ ہونے کے بعد قم میں تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں انہوں نے شیعہ شناسی، علم رجال اور حدیث و تاریخ میں مہارت حاصل کی۔ موصوف اس وقت جامعۃ المصطفیّٰ(ع) العالمیہ میں استاد کے عنوان سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

عصام العماد چونکہ ایک طویل عرصے تک وہابی فرقے کے عالم دین تھے اور اس فرقے کی اصلیت سے بخوبی آشنا ہیں اس وجہ سے اب وہابیت کی حقیقت کو ظاہر کرنے میں کتابیں تالیف کر رہے ہیں۔

موصوف نے اپنے خاندان میں تبلیغ کے ذریعے پانچ افراد یعنی اپنے بھائی حسن العماد، تین بہنیں اور ایک بھانجے طہٰ الذاری کو شیعہ کر دیا ہے جو قم میں زیر تعلیم ہیں۔