رسول اکرم (ص) کی رحلت اور امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کی مناسبت سے عالم اسلام سوگوار

 

رسول اکرم (ص) کی رحلت اور امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت کی مناسبت سے عالم اسلام سوگوار

28 صفر المظفر اسلام کے درخشاں ترین آفتاب خداوند عظیم کے عظیم ترین پیغامبر آخری سفیر وحی و رسالت رحمۃ للعالمین صاحب ” لو لاک لما خلقت الافلاک ” مرسل اعظم نبی مکرم (ص) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی جانگداز رحلت اور آپ کے بڑے نواسے علی(ع) و فاطمہ (س) کے لخت جگر سبط اکبر حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اسی لئے آج پورا عالم اسلام بلکہ دنیائے بشریت بلکہ پوری کائنات ، آسمانوں اور زمین کے درمیان تمام مخلوقات غم و اندوہ کے سیاہ لباس میں غمگین و سوگوار ہے ۔

رسول اسلام (ص) نے ہمیشہ درد و مصیبت میں مبتلا عالم بشریت سے عشق و دوستی کی بنیاد پر نبوت و رسالت کا عظیم و خطیر فریضہ اپنے کاندهوں پر اٹهایا اور جہل و نادانی ، فریب و مکر اور ظلم و استبداد میں اسیر عالم بشریت خصوصا” محروموں اور مستضعفوں کو حق و حقیقت کی راہ دکهائی اگرچہ اس راہ میں ان کو سخت ترین آزار و اذیت ، بے وطنی اور مسلسل جنگ و پیکار سے گزرنا پڑا خود مرسل اعظم (ص) فرماتے ہیں ۔

 

اسوۂ صبر و استقامت امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت

مرسل اعظم (ص) نے اپنی وصیت میں اگرچہ قرآن و عترت سے تمسک کا حکم دیا تها مگر امت نے وصیت فراموش کردی اور عترت رسول (ص) کے تیسرے فرد سبط اکبر امام حسن علیہ السلام کو سینتالیس سال کی عمر میں 28 صفر المظفر سنہ 50 ہجری کو امیر شام کی سازش سے جعدہ بنت اشعث نے زہر دیکر مظلومانہ شہید کردیا اور آج بهی جنت البقیع میں آپ کی جدۂ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد اور آپ کے تین فرزند امام زین العابدین ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام کی اجڑی قبروں اور نبی اکرم کی کئی ازواج اور دیگر اعزہ ؤ اصحاب کے مزاروں کے ساته نواسۂ رسول (ص) کی ویران قبر آپ کی اور آل رسول (ص) کی مظلومیت کی داستان بیان کررہی ہے۔

 

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آنحضرت کا اسم مبارک محمد ،کنیت ابوالقاسم اور مشہور لقب احمد یا مصطفیٰ ہے ،آپ کی عمر ترسٹھ(۶۳) سال تھی۔

آپ (ص) کی ولادت ۱۷ ربیع الاول سن ۱ عام الفیل بروز جمعہ صبح صادق کے وقت ہوئی یہ وہ سال تھا جس سال پروردگار عالم نے کعبہ کو منہدم کرنے کی غرض سے آئے ہوئے لشکر کو ابابیل کے ذریعہ پسپا کیا۔

 

آپ (ص) کی وفات ۲۸ صفر ۱۱ ھجری کو ایک یہودی عورت کے زہر کے زیر اثر واقع ہوئی ۔

جب آپ (ص)  کی عمر مبارک ۲۵ سال تھی تو آپ نے جناب خدیجہ (س) سے شادی کی ،اور چالیس سال کی عمر میں ۲۷ رجب سن۴۰ عام الفیل میں مبعوث بہ رسالت ہوئے ،۱۳ سال تک عظیم مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مکہ میں رہے اور اسلام کی تبلیغ کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ کفار قریش اسلام کی ترقی کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہو گئے ہیں تو مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی، یہی وہ سال ہے جو تاریخ اسلام کے لئے مبدأ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آپ نے اپنی دس سالہ مدنی زندگی کے دوران اپنی رسالت کو پوری دنیا میں پہنچا دیا ۔

آپ کے والد جناب عبداللہ ابن عبدالمطلب کا شمار عرب کی بزرگ شخصیتوں میں ہوتا ہے،تاریخ شاہد ہے کہ جناب عبداللہ جیسی شخصیت عالم عرب میں کم نظیر ہے ،ابھی رسول اکرم (ص) کی ولادت بھی نہ ہونے پائی تھی کہ شام سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ میں آپ کی وفات واقع ہو گئی اور وہیں دفن کر دئے گئے ،اس دلخراش واقعہ کے بعد آپ کی کفالت کی ذمہ داری جناب عبدالمطلب نے سنبھال لی ،جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے دادا نے ایک دایہ کا انتخاب کیا جس کا نام حلیمہ سعدیہ تھا ،جن کے افتخار کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر (ص)ان کی فرزندی میں آ گئے ۔

حلیمہ سعدیہ نے چھہ سال آپ کی پرورش کی اور اس کے بعد آپ کو آپ کی والدہ کے سپرد کر دیا ۔ پھر آپ اپنی والدہ کے ہمراہ مدینہ منورہ اپنے والد کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور واپسی میں آپ کی والدہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں چنانچہ آپ ام ایمن کے ساتھ مکہ واپس تشریف لائے اور اپنے دادا کے دامن میں پناہ لی ۔

ابھی آپ صرف آٹھ برس کے تھے کہ جناب عبدالمطلب کی بھی وفات ہو گئی لیکن باپ جیسے شفیق چچا ،جناب ابوطالب اور ماں جیسی چچی فاطمہ بنت اسد نے یتیم عبداللہ کو اپنے کلیجے سے لگا لیا ۔یہی وجہ ہے کہ اگر چہ رسول اسلام نعمت پدری و مادری سے محروم ہو گئے لیکن کبھی آپ کو احساس یتیمی نہ ہونے پایا کیوں کہ آپ کو جناب عبدالمطلب ،ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد جیسے سرپرست نصیب ہوئے ۔لیکن ظاہر ہے کہ حضرت نے یتیمی کا داغ بھی دیکھا ہے ۔

 

چنانچہ قرآن کریم اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

اَلَمْ يَجْدِكَ يَتيماً فآوي وَ وَجَدَكَ ضالاً فَهَدَي. وَ وَجَدَكَ عَائِلاً فَاَغْنَي۱

کیا ہم نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے ،اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے اور تم کو تنگ دست پا کر غنی نہیں بنایا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آنحضرت اگر چہ یتیم ،گم گشتہ اور تنگدست تھے لیکن ان چیزوں نے آپ کی شخصیت کو متاثر نہیں کیا کیونکہ خداوند نے آپ کو ابوطالب جیسی شخصیت کے سپرد کیا تھا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی خاتون کی ثروت کے ذریعہ غنی بنایا ،کیوں کہ خدیجہ نے شادی کے وقت ہی سارا مال پیغمبر(ص) کے قدموں میں ڈال دیا تھا ۔

آپ کی والدہ آمنہ خاتون جناب وہب کی دختر، ایک باشرف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور مزید شرافت کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کو آنحضرت کی ماں بننے کا شرف ملا ہے ۔

پیغمبر اکرم (ص) کی شرافت ،کرامت، نیک سیرتی اور معجزات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے متعلق سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔لیکن اختصار کے مد نظر ہم ان کا ذکر یہاں پر نہیں کرر ہے ہیں ۔ صرف ایک معجزہ کا ذکر جو آپ کی ولادت کے وقت رونما ہوا اور ایک دوسری بات جسے قرآن نے آپ کے سلسے میں ذکر کیا ہے بیان کریں گے ۔اس کے بعد رسول اکرم (ص)کے القاب کی تفسیر بیان کریں گے اور آخر میں خاتمیت کے متعلق گفتگو ہو گی ۔

 

معجزہ

مؤرخین کا کہنا ہے کہ جس دن آنحضرت کی ولادت ہوئی اس روز دنیا میں کچھ تبدیلیاں اور تغییرات رونما ہوئے جیسے قصر کسریٰ کے کنگورے ٹوٹ گئے اور ان میں شگاف پیداہو گئے ،دریائے ساوہ خشک ہو گیا ،فارس کا آتشکدہ جو مدتوں سے روشن تھا خاموش ہو گیا ،دنیا بھر کے بادشاہ اور سلاطین اس روز حیران و پریشان ہو گئے تھے ،بتوں کا سرنگوں ہوجانا ،جادوگروں کا جادو اس دن بے اثر ہو گیا تھا ،ساری کائنات میں "لا الٰہ الا اللہ” کا شور اور جس وقت آپ پیدا ہوئے ساری کائنات آپ کے نور سے منور ہو گئی اور فرمایا: لا الٰہ الا اللہ اور ساری کائنات نے ان کے ساتھ کہا لا الٰہ الا اللہ ۔۔۔

قرآن اور پیغمبر اسلام

 

قرآن مجید پیغمبراسلام (ص)کے سلسلے میں فرماتا ہے :

وكذلك جعلناكم امة وسطاً لتكونوا شهداء علي النّاس ويكون الرسول عليكم شهيداً ۲

اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمھارے اعمال کے گواہ رہیں ۔

اس آیت کے دو معنی ہیں :ایک ظاہری معنی جسے تمام افراد سمجھ سکتے ہیں،وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کو دوسری امتوں کے لئے سرمشق قرار دیا گیا ہے تاکہ دوسری اقوام اس کی پیروی کریں اور پیغمبر اسلام (ص) بھی امت اسلامیہ کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔لیکن اس کے ایک دوسرے معنی بھی ھیں جسے ائمہ معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصاً علامہ طباطبائی نے اس آیت کریمہ کے ذیل میں مفصل بحث کی ہے اور ان روایات سے استفادہ کیاہے ۔وہ معنی یہ ہے کہ امت اسلامیہ قیامت کےدن دوسری امتوں کے اعمال کی گواہ ہے اور چونکہ ساری امت والے اس عمل گواہی کی لیاقت نہیں رکھتے لہذا یہ امر ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہے ،سنی اور شیعہ دونوں کی روایات میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے ۔

بہر حال آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو خلق کیا تاکہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کی شہادت دیں اور پیغمبر اکرم(ص) کو ان کے اعمال پر گواہ قرار دیا گیا ۔اور چونکہ گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی دنیا میں تمام امت کے اعمال سے باخبر ہو تاکہ قیامت کے دن شہادت دے سکے ،لہذا ضروری ہے کہ ائمہ علیہم السلام اس عالم وجود پر پوری طرح سے احاطہ اور اشراف رکھتے ہوں تاکہ امت کے اعمال سے مطلع رہیں ،یہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسانوں کے دل میں چھپے ہوئے اسرار سے بھی واقف ہوں تاکہ قیامت کےدن اعمال کی کیفیت کی بھی گواہی دے سکیں ۔ ان تمام اوصاف کے حامل افراد کو واسطہ فیض کہتے ہیں ،بہ الفاظ دیگر انھیں ولایت تکوینی حاصل ہوتی ہے ۔

اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اس کائنات کے لئے واسطہ فیض ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے لئے واسطہ فیض ہیں ۔اس معنی کے پیش نظر ان روایات کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عقل کل ،نور مطلق یا اول ما خلق اللہ بتایا گیا ہے ۔

یہ ایک طولانی بحث ہے اور اس مقالہ میں اس پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے (اس کی تفصیلی بحث کے لئے "الامامۃ والولایۃ فی القرآن "کی طرف مراجعہ فرمائیں )

قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ساری آیات و روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اس دنیا میں واسطہ فیض ہیں ،چنانچہ اس دنیا میں جتنی بھی نعمتیں پائی جاتی ہیں ،چاہے وہ ظاہری ہوں جیسے عقل ،سلامتی ،امنیت ،روزی وغیرہ یا باطنی نعمتیں ہوں جیسے علم ،قدرت ، اسلام وغیرہ یہ سب انھیں کے وسیلے سے ہیں ۔یہ ذوات مقدسہ اس کائنات کے رموز خلقت سے واقف اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان مقدس ذوات کے لئے واسطہ فیض ہیں ۔اور ہر وہ ظاہری و باطنی نعمتیں جو انھیں ملتی ہیں وہ سب آنحضرت کے وسیلہ سے ملتی ہیں کیوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان نعمتوں کے لئے علت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔یہ ہے اس آیت کا مفہوم جس میں ارشاد ہوتا ہے :”وكذلك جعلناكم امةً وسطاً لتكونوا شهداء علي النّاس ويكون الرسول عليكم شهيدا”ً اور یہ روایت جو ائمہ اطہار سے منقول ہے کہ "جو کچھ بھی ہم کہتے ہیں یا جو بھی ہمارے پاس ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے اور جو بھی آنحضرت نے فرمایا یا ان کے پاس موجود ہے وہ خداوند عالم کا عطیہ ہے ” اسی معنی کو بیان کرتی ہے ۔

 

القاب

پیغمبر اسلام کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں سے ہم بعض القاب کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مختصر وضاحت کریں گے ۔

۱۔ احمد

قرآن مجید نے پیغمبر کو اس لقب سے یاد کیا ہے اور اسی سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ حضرت کو اسی لقب سے "انجیل "میں بھی یاد کیا گیا ہے ۔

ارشاد ہوتاہے :”و مبشراً برسولٍ يأتي من بعدي اسمه احمد”۳

میں اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

احمد کے معنی ہیں "حمد کرنے والا”اور چونکہ رسول اکرم پروردگار کی حمد کیا کرتے تھے یعنی حقیقی حمد و شکر کو انجام دیتے تھے لہذا انھیں احمد کہا گیا ہے ،روایات میں ہے کہ لوگ آپ کی کثرت عبادت کی وجہ سے آپ پر اعتراض کیا کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے :الم اکن عبداً شکوراً ؟

آیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟

۲۔محمود

آپ کا ایک لقب محمود بھی ہے چنانچہ آپ کا اسم گرامی قرآن مجید میں محمد ہے اور آپ کو محمد اور محمود کہا گیا ہے کیوں کہ آپ کے تمام صفات لائق تعریف ہیں قرآن مجید فرماتا ہے: انك لعلیٰ خلق عظيم۴

اور آپ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں۔

۳۔ امی

یعنی”جس سے کسی سے تعلیم حاصل نہ کی ہو” چنانچہ قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے: وما كنت تتلوا من قبله من كتابٍ ولا تخطّه بيمينك اذاً لارتاب المبطلون ۵

اور اے پیغمبر ! آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی قرآن پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہہ میں پڑ جاتے۔

لیکن تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لانا اہل باطل کے شک کو بالکل مسترد کر دیتا ہے ۔چنانچہ پہلے چنانچہ پہلے بھی ہم اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ خود آپ کا امی ہونا ہی آپ کے معجزات میں سے ہے ۔ ایسا انسان جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان پڑھ ہے اور وہ ایسی کتاب لے آئے جس میں تمام علوم موجود ہوں ،یہ کتاب اپنے آپ کو کتاب ہدایت کے ذریعہ پہچنواتی ہے اور ہدایت کے معنی راستہ بتانے اور مقصد تک پہنچانے کے ہیں اسی وجہ سے بہت سی آیات میں فلسفی دلیلوں کو بطور مختصر اور قابل فہم بیان کیا گیا ہے ۔قرآن کوئی فقہ کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ایسے ایسے قوانین اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے کہ جس کے سامنے بشریت آج بھی سر تعظیم خم کئے ہوئے ہے ۔کیا کسی میں جرأت ہے کہ وہ قرآنی قوانین کے مانند عبادی ،سیاسی،معاشرتی ،اور جزا اور سزا سے متعلق قوانین لے آئے ؟ قل لئن اجتمعت الانس والجن علي ان ياتوا بمثل هذا القرآن لايأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعضٍ ظهيراً ۶

آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے ،چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔

۴۔ کریم

یہ لقب قرآن کریم سے لیا گیا ہے: اِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ۷

بے شک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے۔

آپ نے اپنی مکی زندگی میں زیادہ مصیبتوں کا سامنا کیا حتیٰ کہ آپ کو پتھر مارا گیا اور آپ پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے لیکن جب حضرت خدیجہ (س) اور امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے پاس پہونچتے تو آپ کو یہی کہتے ہوئے پاتے تھے "اَللَّهُمَّ اَهْدِ قَوميِ فَاِنَّهُمْ لايَعْلَمُونَ”

پروردگار میری قوم کی ہدایت فرما یہ نادان ہیں ۔

جس روز آپ ۱۲ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ میں وارد ہوئے اور اپنے کسی صحابی کو یہ کہتے سنا کہ "الیوم یوم الملحمہ” آج جنگ کا دن ہے تو آپ نے امیرالمومنین علیہ السلام کو بھیجا اور یہ کہلوایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کر دیں کہ "الیوم یوم المرحمۃ” آج کا دن مرحمت اور عفو کا دن ہے ۔

۵۔ رحمت

یہ لقب بھی قرآن کریم نے آپ کو دیا ہے : وما ارسلناك الا رحمة للعالمين ۸

 

اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔

حضرت ختمی مرتبت کی رأفت و رحمت و مہربانی کو دیکھتے ہوئے قرآن مجید کا ارشاد گرامی ہے : فلعلَّك باخع نفسك علي آثارهم ان لم يؤمنوا بهذا الحديث اسفا ۹

تو کیا آپ شدت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے ،اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے ؟

آپ کے حاالات سے یہ بتہ چلتا ہے کہ آپ کی زندگی میں افسوس بھی تھا ،آپ کا شیوہ راز و نیاز تھا ،صبر تھا نیز رنج و مصیبت بھی ۔

لقد جائكم رسول من انفسكم عزيز عليه ماعنتم حريص عليكم بالمؤمنين رؤف رحيم ۱۰

یقیناً تمھارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم میں سے ہے ،اور اس پر تمھاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ،وہ تمھاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مؤمنین کے حال پر شفیق و مہربان ہے

۶۔ متوکل

آپ کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے جس کے معنی خود کو چھوڑ کر پروردگار پر بھروسہ رکھنے والے کے ہیں ۔

آپ سے جو دعائیں ماثور ہیں ان میں اس طرح وارد ہوا ہے : اللهم لاتكلني الي نفسي طرفة عين ابد

پروردگار مجھے ایک لمحہ کے لئے میرے حال پر نہ چھوڑنا ،کہا جاتا ہے کہ ایک دشمن نے آپ کو ایک جنگ میں تنہا سوتا دیکھ کر فوراً تلوار نکالی اور آپ سرہانے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا : اے محمد اب تمھیں کون مجھ سے بچا سکتا ہے ؟ فرمایا: خدا ،یہ جملہ اتنا سخت تھا کہ وہ شخص لرزنے لگا اور تلوار نیچے لاتے وقت اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ۔حضرت اٹھے اور تلوار اٹھائی اور تلوار اس کے سر پر کھینچ کر پوچھا : کون ہے جو تجھے بچا سکے ؟ کہنے لگا : آپ کا رحم وکرم ،یہ سنتے ہی حضرت نے اسے معاف کر دیا ۔آپ ایسے کام جن کا پورا ہونا لوگوں کی نظروں میں ناممکن ہوتا ہے ،اسے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کر گزرتے تھے ۔

اسی توکل کا نتیجہ تھا کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود تھا ۔

آپ دنیا کو چھوڑ کر خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ،اسی لئے آپ کی نظر میں دنیا کی کوئی اہمیت نہ تھی ،منقول ہے کہ آپ فرماتے تھے :دنیا کی مثال اس درخت کے سایے کے مانند ہے جس کے نیچے آدمی تھوڑی دیر آرام کرتا ہے ۔

مختصر یہ ہے کہ آنحضرت متوکل تھے یعنی آپ اپنے اوپر نہیں ،خدا پر بھروسہ رکھتے تھے ، نہ ہی دوسروں پر ،اور نہ ہی دنیا پر بھروسہ رکھتے تھے ۔

۷۔ امین

آنحضرت کے دیگر القاب میں سے ایک لقب امین ہے ۔یہ ایسا لقب ہے جس کے ذریعہ عرب اسلام سے قبل حضرت کو مخاطب کیا کرتے تھے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ قبل از بعثت آپ کے اندر غیرمعمولی کمالات موجود تھے منجملہ عفت ،صداقت ،محروموں کی امداد، اچھے معاشرتی آداب و رسوم کی رعایت ،خصوصاً صفائی اور امانتداری ،یہ ایسے صفات ہیں جنکی وجہ سے آپ عرب میں مشہور ہو گئے تھے ،جناب ابوطالب فرماتے ہیں : میں نے حضرت کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا ،حتیٰ کہا جاتا ہے کہ کسی نے آنحضرت کو قضائے حاجت کی حالت میں نہیں دیکھا ۔

جس روز آپ کو یہ حکم ملا کہ آپ اپنی تبلیغ علانیہ شروع کردیں ،آپ نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انھیں اسلام کی دعوت دیں اور سب سےپہلے جو چیز ان سے پوچھا وہ یہی تھی کہ : تم لوگوں نے مجھ کو کیسا پایا؟ سب نے جواب دیا : بے شک آپ صادق اور امین ہیں ۔

عبداللہ بن جزعان نامی شخص جو فقیر تھا اور اسے گھر کی ضرورت تھی جبکہ آنحضرت کی عمر اس وقت صرف سات سال تھی لیکن آپ بچوں کو جمع کرتے تھے اور گھر بنوانے میں اس کی مدد کرتے تھے ۔یہاں تک کہ اس کے گھر کا نام ہی "دار النصرہ ” رکھ دیا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لئے معین کر دیا ۔

آنحضرت نہایت مودب طریقہ سے چلتے تھے ،ادب سے بیٹھتے تھے اور ادب سے بات کرتے تھے ،ہمیشہ مسکرایا کرتے تھے جس کی وجہ سے آپ کو "ضحوک” کہا جانے لگا ۔

آپ شیرین کلام اور فصیح تھے اور کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے ،جہاں تک ممکن ہوتا لوگوں سے لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے اور یہ ایسی چیزیں ہیں جو تاریخ کی رو سے مسلم اور یقینی ہیں ۔

۸۔عبداللہ

یہ لقب بھی قرآن کا دیا ہوا ہے ۔

سبحان الذي اسري بعبده ليلا من المسجد الحرام الي المسجد الأقصي الّذي باركنا حوله لنريه من آياتنا انه هو السميع البصير۱۱

پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک ،بے شک وہ ذات سمیع و بصیر ہے

یوں کہنا بہتر ہوگا کہ یہ لقب آنحضرت کے بہترین القاب میں سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ تشہد میں رسالت سے پہلے اس کا ذکر ہے ،عبودیت کے چند مراتب ہیں جس میں سب سے اونچا مرتبہ لقاء اللہ ہے جسے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے ،چنانچہ یہ ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں دل صرف اپنے پروردگار کی طرف جھکتا ہے "لاتلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله” ۱۲ تجارت اور خرید و فروش انھیں خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔

یہ وہ مرتبہ ہے جہاں دل عشق پروردگار سے لبریز ہو جاتا ہے ،اور پھر انسان اپنی زندگی میں کسی بھی ہم و غم کو نہیں آنے دیتا یعنی اس کی نظر میں خدا رہتا ہے صرف خدا ۔۔۔

اور اس کا دل اطمینان و وقار سے بھر جاتا ہے :” الا بذكر الله تطمئن القلوب”۱۳ پھر انسان کی زندگی میں اضطراب کی کیفیت کا بالکل خاتمہ ہوجاتا ہے ،” الا انَّ اولياء الله لا خوف عليهم ولاهم يحزنون” ۱۴

بے شک اولیاء خدا کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن و اندوہ۔

آنحضرت معصوم تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ دوسروں کا گناہ بھی آپ کو رنجیدہ خاطر کرتا تھا ۔عبادت میں آپ کو بہت لطف آتا تھا بلکہ کثرت عبادت سے آپ کے پیروں میں ورم آجاتا تھا اس لئے سورۂ طٰہ نازل ہوا اور آپ کو کثرت عبادت سے منع کیا ۔

۹۔ مصطفیٰ

یہ لقب امت اسلامیہ کے لئے باعث افتخار ہے اسکے معنی "منتخب”کے ہیں خدا نے آپ کو تمام موجودات کے درمیان سے چنا اور کیوں نہ منتخب قرار پائیں ؟

آپ مختلف ابعاد کے مالک تھے ،آپ کو مقام جمع الجمعیٰ حاصل تھا ،جس جگہ عفو و رحمت اور ایثار و فداکاری کی بات آتی آپ کا نام سر فہرست ملتا ہے ،جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر کر کے لائی گئی اور اسلام قبول کر لیا تو آپ نے اسے اس کے بھائی عدی بن حاتم کے پاس بھیج دیا،عدی نے اپنی بہن سے باتیں سننے کے بعد رسول اسلام سے ملاقات کا ارادہ کیا تاکہ نزدیک سے اسلام کا مشاہدہ کرے اور اس سے آشنا ہو سکے اور اسلام کو سمجھ کر اسے قبول کرے ،ان کا بیان ہے کہ : میں پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ گھر جا رہا تھا کہ ایک عورت نے راستے میں رسول سے کچھ کہنا چاہا ،چنانچہ حضرت رکے اور اس کی باتوں کو سنا اور نہایت ہی لطف اورمہربانی کا مظاہرہ کیا اس نے حضرت کو بہت زیادہ دیر کھڑے رہنے پر مجبور کیا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کی بات نہیں کاٹی بلکہ آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا ۔

عدی کہتے ہیں : اس بات کی وجہ سے آنحضرت کی رسالت مجھ پر روشن ہو گئی جب میں گھر پہنچا تو وہاں انداز زندگی بالکل سادہ تھا ،گھر کا فرش بھیڑ کی کھال سے بنا ہوا تھا ، کھانے میں جو کی روٹی اور نمک تھا جس کی وجہ سے میرے سامنے آپ کے نبوت کی دوسری دلیل بھی ظاہر ہوگئی ۔جو انسان اتنی قدرت اور تمکنت رکھتا ہو ،اس کے اس قدر مرید اور چاہنے والے ہوں اس کی زندگی اس قدر سادہ ہے ؟اور آخر کار آپ کا معجزہ دیکھ کر میں آپ پر ایمان لے آیا اور مسلمان ہو گی

حضرت نے مجھ سے فرمایا : تم تو دین اور عقیدے کے اعتبار سے ٹیکس کو حرام جانتے ہو کیوں لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہو ؟ اس بات سے آنحضرت کی نبوت میرے سامنے ظاہر ہو گئی ۔

وہ پیغمبر جس کی رقت قلب کا یہ عالم ہے کہ جب اس بچے کے رونے کی آواز سنتے جس کی ماں نماز میں مشغول ہے تو اپنی نماز جلد ختم کر دیتے ہیں،یہی پیغمبر جب اس بچی کو دیکھتے ہیں جس نے اپنا پیسہ گم کر دیا ہے تو اس کو پیسا دیتے ہیں اور اس کی سفارش کیلئے اس کے گھر تک جاتے ہیں اور یہی پیغمبر جب یہ دیکھتا ہے کہ دھوکے باز یہودی سازش اور پیمان شکنی کے ذریعہ اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہے ییں تو ان کے سات سو افراد کے قتل کا حکم دے دیتے ہیں اور اسی کو مقام جمع الجمعیٰ یا مختلف ابعاد کا مالک کہتے ہیں۔

عموماً اگر انسان زہد ،عبادت اور ریاضت نفس کا راستہ اختیار کر لے تو لوگوں سے اس کے تعلقات سرد ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ جاتی اور اس طرح وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت نہیں کر پاتا کیوں کہ اس کا اخلاقی پہلو ضعیف ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر کا اخلاقی کردار نہایت قوی یا بلند تھا ،بعثت سے قبل غار حرا آپ کی عبادت گاہ تھی ،آپ عبودیت کی معراج پر فائز تھے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود قرآن آپ کے اخلاق حسنہ کی گواہی دیتا ہے اور لوگوں کے سامنے آپ کی ملنساری پر مہر تصدیق لگاتا ہے ۔”فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم ولو کنتَ فظاً غلیظ القلب لانفضوا من حولک”

یعنی اے پیغمبر آپ گفتار ،رفتار ،زبان ،عمل کے ذریعہ لوگوں کو اپنے اطراف سے بھگاتے نہیں بلکہ انھیں چیزوں کے ذریعہ لوگ آپ کے چاروں طرف پروانوں کی طرح چکر لگا رہے ہیں اور اگر کوئی آپ کا اتباع کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ رقیق القلب بنے قسی القلب نہ ہو۔

مختصر یہ کہ آپ کی ذات گرامی تمام صفات کمالیہ کی مالک تھی حالانکہ ان صفات کو اپنے اندر جمع کرنا بہت مشکل اور دشوار امر ہے ،آپ عالم ،عاشق خدا ،عارف ،دشمنوں کے لئے سخت ،شجاع،خوشرو،عاقل ،آخرت کو اہمیت دینے والے بلکہ دنیا کو بھی اہمیت دینے والے تھے ،ساتھ ہی ساتھ زاہد ،سرگرم عمل اور ثبات قدم کے مالک تھے ۔

آپ کے القاب بہت زیادہ ہیں جس طرح آپ کے صفات کمالیہ بے شمار ہیں لیکن اختصار کے پیش نظر ہم فقط انھیں چند القاب کو بیان کر رہے ہیں :

بلغ العلیٰ بکمالہ ******** کشف الدجیٰ بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ ******** صلّوا علیہ و آلہ

آپ کمال کے عالی ترین درجہ پر فائز تھے ،تمام تاریکیاں آپ کے جمال سے روشن ہوگئیں۔ آپ کے تمام صفات نیک اور پسندیدہ ہیں ،ان پر اوران کی آل پاک پر صلوات بھیجو۔

 

خاتمیت

آپ کے جملہ القاب میں سے ایک لقب خاتم الانبیاء بھی ہے ،خاتم (ت پر فتحہ اور کسرہ دونوں صحیح ہے)اور دونوں کے معنی ایک ہیں چنانچہ عربی میں خاتَم (تا کے فتحہ کے ساتھ)کے معنی انگوٹھی کے ہیں ،کیوں کہ اس زمانے میں مہر کے لئے استعمال ہوتی تھی اور اس زمانے میں جب کسی کو خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں انگوٹھی کے ذریعہ مہر لگا دیتے تھے۔پیغمبر اکرم کی خاتمیت بھی اسی معنی میں ہے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی پیغمبر نہ آئے گا ۔

حلال محمد حلال الیٰ یوم القیامۃ و حرام محمد حرام الیٰ یوم القیامۃ۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کی رسالت ساری دنیا کے لئے ہے ،اور ہر زمانے کے لئے ہے ۔

 

وما ارسلناک الا کافۃ للناس ۱۵

ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بھیجا ہے ۔

 

ما كان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله و خاتم النّبيين (احزاب/۴۰)

قرآن مجید میں ایسے خطابات متعدد مقامات پر پائے جاتے ہیں نیز خاتمیت کے عنوان پر پائی جانے والی روایات بھی بہت ہیں ۔

حدیث منزلت : یہ ایک ایسی حدیث ہے جو شیعہ اور اہل سنت دونوں ہی فرقوں کے نزدیک مسلم ہے چنانچہ صاحب غایۃ المرام نے اس حدیث کو ۱۷۰ سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جس میں ۱۰۰سندیں اہل سنت سے ہیں ۔

 

انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبیَّ بعدی

تمھاری منزلت میرے نزدیک ویسے ہی ہے جیسے ہارون کی منزلت موسیٰ کے نزدیک تھی ، فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

 

دو چیزوں کو خاتمیت کا راز کہا جا سکتا ہے۔

 

(الف) اسلام دین فطرت ہے

فاقم وجهك للدّين حنيفاً فطرت الله الّتي فطرالّناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدّين القيّم لكنّ اكثرالّناس لايعلمون (روم /۳۰)

آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں چونکہ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے ،یقیناً یہی سیدھا راستہ اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے ۔

 

(ب) اسلام ایک جامع دین ہے

یعنی اسلام ایسا دین ہے جو ہر زمانے ہر مکان اور ہر حال میں معاشرے کی مشکلات کا حل رکھتا ہے ،نیز اسلام بھی اس بات کا مدعی ہے کہ اس نے تمام انسانی ضروریات کا راہ حل بیان کیا ہے ۔

 

وانزلنا عليك الكتاب تبياناً لكلّ شيء ۱۶

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شئ کی وضاحت موجود ہے ۔

 

اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الاسلام ديناً ۱۷

آج(غدیر کےدن)میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے ۔

بہت سی روایات میں بھی ایسا ہی دعویٰ پایا جاتا ہے کہ یہ روایات ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول ہیں ۔

ما من شئٍ تطلبونہ الا وھو فی القرآن فمن اراد ذالک فلیسئلنی عنہ

تمھارے ضرورت کی کوئی ایسی چیز نہیں جو قرآن میں موجود نہ ہو ،لہذا جو چاہو مجھ سے پوچھو۔

اب ایسی صورت میں کسی دوسرے دین کا آنا بے فائدہ یا تحصیل حاصل ہے ،یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ کسی دین کا کسی دین کے بعد آنا چند چیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

۱۔ جب پہلا دین معاشرے کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو ،اور کسی زمانے سے مخصوص ہو جب کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ اسلام ہر زمانے کے لئے ہے اس میں کوئی محدودیت نہیں ہے ،اور اس کی واضح دلیل مسئلہ مرجعیت ہے ،آپ کسی فقیہ جامع الشرائط کو نہ پائیں گے کہ اس سے کسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا جائے اور وہ اس مسئلے کو نہ جانتا ہو یا جواب نہ دے سکے ۔

۲۔ پہلے والے دین میں تحریف یا انحراف پیدا ہو جائے ،چنانچہ یہودیت ،اور عیسائیت اس کی واضح مثال ہیں ،انھیں خود بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا دین تحریف شدہ ہے ۔

جبکہ یہ چیزیں اسلام میں نہیں ملتی ہیں کیوں کہ پروردگار نے اس کے حفاظت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے رکھی ہے ۔

لا ياتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حميد ۱۸

جس کے قریب ،سامنے یا پیچھے سے باطل نہیں آسکتا کہ یہ خدائے حمید و حکیم کی نازل کردہ کتاب ہے ۔

۳۔ زمانہ اس بات کی اقتضا کرتا ہو کہ پہلے والا دین باقی نہ رہے ،اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی دین نے معنویات و روحانیت کی طرف زیادہ توجہ دی ہو تا کہ معاشرے میں اعتدال پیدا ہو جائے تو جب معاشرے میں تعادل برقرار ہو جائے تو اس دین کی ضرورت ختم ہو جائے گی ،لیکن اسلام ایسا دین نہیں ہے کیوں کہ ہم پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے یعنی اس دین مقدس میں جتنی اہمیت معنویت کو دی ہے اتنی ہی مادیت کو بھی ۔

وابتغ فيما اتيك الله الدّار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدّنيا ۱۹

جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاؤ ۔

خدا نے ہمیں عقل، قدرت ،شعور ،توفیق ،مال و منال وغیرہ جیسی نعمتیں دی ہیں ہمیں چاہئے کہ ان چیزوں کے ذریعہ اپنی آخرت کی طرف متوجہ ہوں لیکن دنیا کو بھی نہ بھولیں ۔

اسلام ایک ایسی کتاب کا نام ہے جس میں تمام قوانین بیان کئے گئے ہیں جس کے ذریعہ ہم اپنے مسائل اور مشکلات کا حل تلاش کر سکتے ہیں ،یہ کتاب اپنےدامن میں ایسے نکات کو سمیٹے ہوئے ہے جسے انسان قیامت تک بروئے کار لا سکتا ہے ،گزشتہ انبیاء،اللہ کی طرف سے آئے تاکہ اپنے ساتھ لائے ہوئے قوانین کو بیان کریں (انھیں رسول کہتے ہیں)اور قرآن کریم ان انبیاء کی جگہ پر ہے اور ان کی نیابت کر رہا ہے ،لہذا دوسرے انبیاء کا آنا بے فائدہ ہے ،یا یوں کہا جائے کہ ان کی بعثت کا مقصد دین الٰہی کی تبلیغ اور قوانین الٰہی کا نفاذ تھا اور اکثر انبیاء اسی مقصد کے لئے آئے تھے ،اور اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے قانون کے نفاذ کے لئے نیکی کی ہدایت کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ،علماء کی شکل میں موجود ہیں ،چنانچہ اسلام نے ان علماء کو بہت اہمیت دی ہے بعض روایات میں علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

مسئلہ امامت اور اس کے بعد یعنی غیبت کے دوران ولایت فقیہ جیسی اہم چیزیں اسلام میں ایسی ہیں جن کی وجہ سے رسول کی خالی جگہ پر ہو جاتی ہے اور اس کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ،گویا اب رسول کا آنا جب کہ تمام ضروریات مہیا ہوں تو عبث اور بے فائدہ ہے۔

یہ بحث خاتمیت کا خلاصہ تھا اور ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ بہت تفصیلی اور علمی ہے جو اس مختصر مقالے میں بیان نہیں ہو سکتا ہے ،تفصیل کے لئے ولایت فقیہ سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

…………………………………………………………………………………………………………..

۱۔ سورۂ ضحي، آيات 6 و 7 و 8.

۲۔ سورۂ بقره، آيه 143.

۳ ۔ سورۂ صف، آيه 6.

۴ ۔ سورۂ قلم، آيه 4.

۵ ۔ سورۂ عنكبوت، آيه 48.

۶ ۔ سورۂ بني اسرائيل 88.

۷ ۔ سورۂ تكوير، آيه 19.

۸ ۔ سورۂ انبياء، آيه 107.

۹ ۔ سورۂ كهف، آيه 6.

۱۰ ۔ سورۂ توبه، 128.

۱۱ ۔ سورۂاسراء، آيه 1. 17/1.

۱۲ ۔ سورۂ نور، آيه 37. 24/37 کا جزء

۱۳ ۔ سورۂ رعد، آيه 28 کا جزء

۱۴ ۔ سورۂ يونس، آيه 62.

۱۵ ۔ سورۂ سبا، آيه 28کا جزء

۱۶ ۔ سورۂ نحل، ايه 89 کا جزء

۱۷ ۔ سورۂ مائده ، آيه 3 کا جزء

۱۸۔ سورۂ فصّلت، آيه 42.

۱۹ ۔ سورۂ قصص، آيه 77 کا جزء