ثانئ زہرا حضرت زینب کبری(س) کی ولادت با سعادت مبارک

 

زینب (س) میں تمام شرافت و افتخار و عظمت کے اسباب پائے جاتے ہیں۔اگر قانون وراثت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی ماں کےسوا دنیا کی کسی بھی خاتون کو وہ شرافت حاصل نہیں۔ نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین، بابا کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھے تو سیدا شباب اہل الجنۃ ، اور ماں کو دیکھیں تو سیدۃ نساء العالمین۔

جس وقت آپکی ولادت باسعادت ہوئی رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم مدینہ میں نہیں تھے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے حضرت علی علیہ السلام سے نام مبارک رکھنے کے لئے کہا علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں آپکے پدر گرامی پر سبقت نہیں لے سکتا ہم پیامبر اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے مدینہ میں وارد ہونے تک انتظار کرینگے جب رسول اکرم صلی اللہ علی وآلہ وسلم تشریف لائےاور ولادت کی خبر سنی تو فرمایا زہرا کی اولاد میری اولاد ہے لیکن ان کے بارے میں خدا وند عالم فیصلہ لینے والا ہے اسکے بعد جبرئیل امین نازل ہوئے اور سلام و تحیت عرض کرنے کے بعد عرض کیا خدا ٓپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے اس بیٹی کا نام زینب رکھئے رسول خدا نے زینب کو آغوش میں لیا اور فرمایا سب اس بچی کا احترام کریں کیونکہ یہ خدیجۃ الکبری کی شبیہ ہےحقیقت بھی یہی ہے جس طرح حضرت خدیجہ نے اسلام کے نشر ہونے میں اپنے احسانات کا سکہ جما دیا اسی طرح زینب کبری نے کربلا کے میدان سے اشہد ان لاالہ الا اللہ کی وہ صدا بلند کی کہ قیامت تک کوئی یزید توحید اور اسلام کو اپنا کھلونانہ بنا سکے گااگر ۶ ہجری میں ولادت والی روایت کو معتبر مانا جائے تو حضرت زینب نےپانچ سال تک رسول اکرم کے وجود مبارک سے فیض حاصل کیااور یہ مدت انکے صحابی رسول ہونے کے لئے کافی ہے اسی اعتبار کی بنیاد پر جن لوگوں نے اصحاب پیامبر کے موضوع پر کتاب تالیف کی ہے اکثر نے حضرت زینب کے اسم گرامی سے اپنے صفحات کو مزین کیا ہےیہ پانچ سال اچھا خاصا وقت تھا جس میں حضرت زینب اپنے جد اطہر سے بہت کچھ سیکھ سکتی تھیں پیامبر اکرم نے اپنی آغوش تربیت میں معرفت کے جام دے دے کر انکے وجود کو صبر و استقامت کا پیکر بنا دیا ،رسول اکرم کیونکہ آیندہ کے حالات سے باخبر تھے اور جانتے تھے کہ انکے اس جگر پارے کو کن کن مصیبتوں کا سامنا کرنا ہےاور یہ کہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے لئے پہاڑ سا دل ،آسماں بوس حوصلہ اور عشق خدا سے سرشار دل کی ضرورت ہے اسی لئے زینب کو صبر و استقامت کا ایسا نمونہ بنا دیا کہ قیام قیامت تک صاحبان قلم انگشت بدنداں رہیں گے

دردناک خواب رسول خدا کی رحلت کے ایام قریب تھے زینب سلام اللہ علیہا نے خواب دیکھا اور اپنے نانا جان سے بیان کیا : نانا جان میں نے کواب دیکھا ہے شدید آندھی چل رہی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا اندھیرے میں ڈوب گئی ہے میں آندھی کی شدت سے زمین پر گر گئی ہوں اور ہوا تھپیڑوں سے ادھر ادھر گر رہی ہوں یہاں تککہ ایک بڑے درخت کے نیچےپنا ہ حاصل کی لیکن وہ بھی کچھ دیر کے بعد ساتھ چھوڑ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خواب سے بیدار ہوگئی ، رسول خدا یہ خواب سن کر گریہ کیا اور فرمایا : جس درخت کے نیچے تم نے پہلی بار پناہ لی تھی وہ تمہارے جد ہیں جو بہت جلد اس دنیا سے جانے والے ہیں اور وہ دو شاخیں جو آپس میں ملی ہوئی ہیں تم نے ان سے پناہ لی وہ تمہارے دو بھائی حسن اور حسین ہیں جن کی مصیبت میں دنیا تاریک ہو جائیگی۔کچھ ہی روز بعد رسول اکرم اس دنیا سے رحلت فرما گئےیہ پہلی مصیبت تھی جو زینب کبری کے قلب نازنین کو گھائل کر گئی۔

حضرت زینب (س) کی شخصیت اور عظمت:

حضرت زینب(س) اس باعظمت خاتون کانام هے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا ہے جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھے رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب(س) کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں۔ نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا(س) نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے جناب زینب(س) کی تطهیر و تزکیہ نفس کا سامان فراہم ہوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین(س) نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا۔ یہ وہ حصار عصمت ہے جس میں زینب کبریٰ (س) نے پرورش پائی اور عہد طفولیت میں ہی تکامل انسانی کی لاجواب مثال بن گئیں۔

تاریخ ولادت:

آپ کی تاریخ ولادت جو شیعوں کے درمیان مشہور ہے پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ۔

نام گزاری:

جس طرح امام حسین (ع) کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا اسی طرح آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے معین ہوا ۔ جب آپ پیدا ہوئیں ؛جناب فاطمہ (س)نے حضرت علی (ع) سے کہا : سمّ ھذہ المولودۃ ۔ فقال ما کنت لاسبق رسول اللہ (کان فی سفر) ۔ ولما جاء النبی(ص) سالہ علی(ع) فقال ماکنت لاسبق ربّی اللہ تعالی ۔ فھبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من اللہ الجلیل وقال لہ سمّ ہذہ المولودۃ زینب ۔ ثمّ اخبرہ بما یجری علیھا من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب ھذہ البنت کان کمن بکی علی اخویھا الحسن والحسین -1-

یعنی حضرت فاطمہ (س) نے مولا علی(ع) سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علی (ع) نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خدا (ص) پر سبقت نہیں کی ہے ۔ کہ آپ سفر پر تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو علی (ع) نے سوال کیا ۔ آپ (ص) نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خدا کا سلام پہنچایا اور فرمایا: اس بچی کا نام زینب رکھا جائے ۔پھر رسول خدا (ص) کو اس نومولود پر بیتنے والی ساری مصیبتیں سنائی ؛ تو رسول خدا (ص) آنسو بہانے لگے ۔ پھر فرمایا : جو بھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا ایسا ہے کہ ان کے بھائی حسن اور حسین (ع)پر آنسو بہایا ہو۔

اسم گرامی:

زینب ہے ۔ اصل میں زین اب یعنی باپ کی زینت ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے الف گر گیا ہے ۔اسی لئے بعض نے کہا :ام ابیھا کے مقابلے میں زین ابیھا رکھا گیا ۔

کنیت:

ام المصائب ہے ۔

مشہور القاب:

شریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ کہ امام سجاد (ع)نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء یعنی کربلا میں پنجتن پاک کے نائب موجود تھے جو بدرجہ شہادت فائز ہوئے :

پیامبر اسلام (ص) کا جانشین علی اکبر(ع)تھے ۔

امیر المؤمنین (ع)کا جانشین ؛علمدار عباس(ع) تھے ۔

حسن مجتبیٰ (ع)کا جانشین ؛ قاسم بن الحسن(ع) تھے۔

فاطمۃ الزہرا (س)کا جانشین آپ کی بیٹی زینب کبریٰ(س)تھیں ۔

اور اس جانشینی کو اس قدر احسن طریقے سے انجام دیا کہ کربلا میں بھائی کے آخری وداع کے موقع پر اپنی ماں کی طرف سے حلقوم اور گلے کا بوسہ بھی دیا-

حضرت زینب (س) کی شخصیت اور عظمت:

۱۔ آپ کا نام وحی کے ذریعے معین ہوا۔

۲۔ آپ رسول اللہ (ص)کی اولاد میں سے ہیں ۔

۳۔ ان کی مصیبت میں رونا امام حسین (ع) پر رونے کے برابر ہے ۔

۴۔ جب بھی امام حسین (ع) کی خدمت میں جاتی تو آپ ان کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔

علامہ محمد کاظم قزوینی لکھتے ہیں کہ زینب (س) میں تمام شرافت و افتخار و عظمت کے اسباب پائے جاتے ہیں۔اگر قانون وراثت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی ماں کےسوا دنیا کی کسی بھی خاتون کو وہ شرافت حاصل نہیں۔ نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین، بابا کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھے تو سیدا شباب اہل الجنۃ ، اور ماں کو دیکھیں تو سیدۃ نساء العالمین۔

شاعر نے یوں آپ کا حسب و نسب بیان کیا ہے :

ھی زینب بنت النبی المؤتمن

ھی زینب ام المصائب والمحن

ھی بنت حیدرۃ الوصی و فاطم

وھی الشقیقۃ للحسین والحسن

 

مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر و استقامت اور خونخوار دشمنوں کے مقابلے میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کرنا آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ہے ۔ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے عطوفت اور مہربانی کا پیکر ،عصمت اور پاکدامنی کے اعتبار سے حیا و عفت کی مالکہ ہونا آپ کی شرافت اور عظمت کیلئے کافی ہے!

ذرا سوچیں کہ اگر یہ ساری صفات کسی خاتون میں جمع ہو جائیں تو اس کے بارے میں آپ کیا فیصلہ کریں گے؟!

چنانچہ زینب کبری (ع) نہضت کربلا میں بہت بڑی مسئولیت اپنے ذمے لی ہوئی تھیں۔اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بچپن ہی سے تلاش کر رہی تھی ۔ معصوم ہی کے دامن میں پرورش اور تربیت حاصل کر رہی تھی ۔

علم و معرفت:

زینب کبری(س) ،رسول خدا (ص)کے شہر علم میں پیدا ہوئیں اور دروازہ علم کے دامن میں پرورش پائی اورحضرت زہرا(س) کے پاک سینہ سے تغذیہ حاصل کیں۔ اور ایک لمبی عمر دو امام بھائیوں کے ساتھ گذاری ۔ اور انھوں نے آپ کو خوب تعلیم دی ۔ اس طرح زینب کبری آل محمد (ص) کے علوم اور فضائل سے مالامال ہوئیں ۔ یہی وجہ تھی سخت دشمنوں جیسے یزید بن معاویہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔ اور سید سجاد (ع)نے آپ کی شان میں فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ و فہمۃ غیر مفہمۃ ۔

زہد و عبادت:

عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں صاحب عظمت تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پرسخت ترین شرایط میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی ؛جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہوگیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آگئی ۔

زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کے خاطردنیا کی لذتوں کو ترک کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہوا وہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے ۔زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے ۔اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے : وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ-1-۔

یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے ؛ اور ہدایت دے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے؛ تو اسے چاہئے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے ۔اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا ؛ خدا تعالی اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا ۔اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا ،اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا ۔ اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة۔

یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخرت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے ۔

حدیث قدسی میں مذکور ہے :أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ

اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہو جائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو ۔

زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندگی ،زہد وتقوی اور اطاعت خدا کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصداق اتم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔ چنانچہ روایت میں آئی ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور وغل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہوجاؤ؛ تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رہ گئیں۔ اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

معاشرے کی اصلاح کیلئے امام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

 

حدیث عشق دوباب است کربلا تاشام

یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب(س)

 

پہلا مرحلہ خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ۔

دوسرا مرحلہ پیغام رسانی ، بیدار گری، خاطرات اور یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ تھا ۔

پہلے مرحلے کیلئے جان نثار اور باوفا اصحاب کو انتخاب کیا ۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا؛ تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب بہ درجہ شہادت فائز ہوگئے۔

اب رہا ،دوسرا مرحلہ ،کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کئے۔ جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔جناب محسن نقوی نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے :

 

قدم قدم پر چراغ ایسے جلاگئی ہے علی کی بیٹی

یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں

ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر

غرور ظلم و ستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفا کا احرام سر برہنہ طواف کرکے

حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا

یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ

غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی –

* ماخوذ از کتاب ’’زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا‘‘

* ur.abna24.com